بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں تمہیں تین لفظ بولتا ہوں کہنے کا حکم


سوال

میاں بیوی کی آپس میں نہیں بنتی تھی اور بیوی کئی بار طلاق کا مطالبہ بھی کر چکی تھی مگر شوہر طلاق نہیں دیتا تھا۔

ایک دن بیوی نے شوہر سے کہا کہ مجھے بچی کے دودھ  کا پیکٹ اٹھا کر دینا  تو شوہر نے کہا کیوں تمہارے ہاتھ ٹوٹ گئے ہیں ؟خود  نہیں لے سکتی؟ تو بیوی نے کہا  تمارے منہ میں زبان نہیں ہےتم تین لفظ  کیوں نہیں بول  دیتے(یعنی طلاق کیوں نہیں دے دیتے) تو شوہر نے جواب میں کہا جاؤ بول دیا پھر بیوی نے کہا کہ یہ کیا کہہ رہے ہو؟صحیح سے کہوکہ   میں نے تمہیں طلاق دی، تو شوہر نے کہا کہ تم نے تین لفظ بولنے کو کہا تھانا جاؤ   ہوگئےتین لفظ ۔

کیا مذکورہ صورت میں طلاق واقع ہوگئی اور اگر ہوگئی تو کتنی ہوئی ؟

جواب

واضح رہے کہ طلاق  واقع ہونے کے لیے  طلاق کا لفظ یا طلاق پر دلالت کرنے والا کوئی صریح یا کنائی لفظ   استعمال کرنا  ضروری ہے،  اُس لفظ کے استعمال کیے بغیر طلاق واقع نہیں ہوتی، لہذا صورتِ مسئولہ میں  جب شوہر نے بیوی کے تین لفظ کہنے کے مطالبہ پر جواب میں  کہا "جاؤ بول دیا"اور " تم نے تین لفظ بولنے کو کہا تھانا جاؤ   ہوگئےتین لفظ "،تو جب میاں بیوی دونوں میں سے کسی نے طلاق کا صریح یا طلاق کے معنی میں استعمال ہونے والا لفظ نہیں کہاتو شرعاً کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی۔

الدر المختار وحاشیہ ابن عابدین میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.

وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله بعض سكان البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه."

(کتاب الطلاق،ج3،ص230،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144401101623

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں