بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 رمضان 1446ھ 28 مارچ 2025 ء

دارالافتاء

 

تین بار سے زائد کہنا میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں


سوال

 شادی کے  کچھ دنوں بعد ہی شوہر نے مجھے طلاق  اور گھر سے نکالنے کی دھمکیاں دینےشروع کی،شادی کے  چھ ماہ بعد میں حمل سے تھی،ان کے تشدد کی وجہ سے مجھے ہسپتال لایا گیا،جہاں میں موت سے لڑتی ہوئی اولاد سے محروم ہوگئی،ہسپتال سے مجھے  والدین کے گھر  لایا گیا،اس سے اب تک اس نے مجھ سے ملاقات نہیں کی، اس کے بعد  اس نے بہت دفعہ مجھے فون پر کہا،میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں، طلاق دے رہا ہوں، طلاق دے دوں گا،تمہیں نہیں رکھنا چاہتا،طلاق نامہ پر دستخط کرچکا ہوں،تمہیں جلد مل جائے گا،گھر کے بزرگوں نے درمیان میں صلح صفائی کے بہت کوشش کی،لیکن اس نے ہر دفعہ کہا میں اس کو طلاق دے دوں گا،میں اس کو نہیں رکھنا چاہتا، مارچ 2024ء میں اس نے مجھے  لکھا ہوا پیغام بھیجا،تم میرے طرف سے آزاد  ہو،آزاد ہو،آزاد ہو،آزاد ہو،میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں،  یہ سب پیغام میرے ساتھ موجود ہے،آج پانچ ماہ گزرنے کے بعد ان کا مجھ سے  کوئی رابطہ نہیں ہے،اب میرے لیے کیا حکم ہے؟

وضاحت:

میرے شوہر نے مجھے یہ الفاظ ’’میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں‘‘ بار بار فون پر تین مرتبہ سے زائد کہے،تھوڑے دن بعد فون پر جب میں یا میری طرف سے کوئی بھی رابطہ کرتا تھا، تواس کے یہ الفاظ تھے اور اس نے طلاق کے یہ الفاظ  کئی بار استعمال کیے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح ہے کہ سائلہ  کےہسپتال سے گھر آنے کے بعد شوہر نے اسے فون پر تین سے زائد مرتبہ طلاق کے الفاظ استعمال کرتے ہوئے یہ کہا’’ میں تمہیں طلاق دے چکا ہوں،طلاق دے رہا ہوں‘‘ تو ان الفاظ سے سائلہ پر  مجموعی اعتبار سے تینوں  طلاقیں واقع ہوگئی ہیں ،سائلہ اپنے شوہر پر حرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوچکی ہے،رجوع یا تجدید ِنکاح کی گنجائش نہیں ہے، سائلہ اپنی عدت  پوری تین ماہواریاں گزارنے کے بعد دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے۔

قرآن کریم میں ارشادباری تعالی  ہے:

"الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔ فَإِن طَلَّقَهَا فَلاَ تَحِلُّ لَهُ مِن بَعْدُ حَتَّىَ تَنكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ "(البقرة: (229.230

’’ وہ طلاق دو مرتبہ (کی )ہے ، پھر خواہ رکھ لینا قاعدے کے موافق، خواہ چھوڑدینا خوش عنوانی کے ساتھ ...  پھر اگر کوئی (تیسری) طلاق دے دے عورت کو تو پھر وہ اس کے لئے حلال نہ رہے گی اس کے بعد یہاں تک کہ وہ اس کے سوا ایک اور خاوند کے ساتھ (عدت کے بعد) نکاح کرے۔‘‘  ) ترجمہ از بیان القرآن)

صحیح البخاری میں ہے:

"عن عائشة أن رجلا طلق امرأته ثلاثا فتزوجت فطلق فسئل النبي صلى الله عليه وسلم أتحل للأول قال: لا حتى يذوق عسيلتها كما ذاق الأول."

ترجمہ: ’’ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، عورت نے دوسری جگہ نکاح کیا اور دوسرے شوہر نے بھی طلاق دے دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کیا یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوگئی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں! یہاں تک کہ دوسرا شوہر بھی اس کی لذت چکھ لے جیساکہ پہلے شوہر نے چکھی ہے۔‘‘

(كتاب الطلاق،باب من أجاز طلاق الثلاث، 2/ 300، ط:رحمانية)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما الطلقات الثلاث فحكمها الأصلي هو ‌زوال ‌الملك، وزوال حل المحلية أيضا حتى لا يجوز له نكاحها قبل التزوج بزوج آخر؛ لقوله عز وجل{فإن طلقها فلا تحل له من بعد حتى تنكح زوجا غيره} [البقرة: 230] ، وسواء طلقها ثلاثا متفرقا أو جملة واحدة."

(كتاب الطلاق، الرجعة، فصل في حكم الطلاق البائن، 187/3، ط: دار الكتب العلمية)

بدائع الصانع میں ہے:

"فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت ‌عدتها ‌بانت."

(كتاب الطلاق، فصل في بيان حكم الطلاق، 180/3، ط: دار الكتب العلمية)

وفيه ايضاً:

"وأما بيان مقادير العدة، وما تنقضي به،فأما عدة الأقراء فإن كانت المرأة حرة فعدتها ثلاثة قروء لقوله تعالى {والمطلقات يتربصن بأنفسهن ثلاثة قروء} [البقرة: 228] ، وسواء وجبت بالفرقة في النكاح الصحيح أو بالفرقة في النكاح الفاسد أو بالوطء عن شبهة النكاح لما ذكرنا أن النكاح الفاسد بعد الدخول يجعل منعقدا في حق وجوب العدة، ويلحق به فيه."

(كتاب الطلاق، الرجعة، 193/3، ط: دار الكتب العلمية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144603100670

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں