بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

میں تمہیں طلاق دیتا ہوں کا حکم


سوال

میری شادی کو آٹھ سال ہوئے ہیں،میرے دو بچے ہیں،میری اور میرے شوہر کے درمیان  کئی دفعہ لڑائی ہوئی ہے،ایک دن لڑائی کے دوران انہوں نے مجھے دو مرتبہ یہ  کہا کہ"آج سے میرا تیرا رشتہ ختم  "اور ایک دفعہ یہ کہا کہ "ہم لوگ الگ ہو جاتے ہیں"، شوہر سے ان الفاظ کے متعلق پوچھا گیا تو کہا" میری نیت طلاق کی نہیں تھی" اور نہ ہی اس وقت  کوئی مذاکرہ طلاق تھا،پھر چند دن بعد لڑائی کے دوران سب کے سامنے یہ کہا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں "دوسری مرتبہ کہہ ہی رہا تھا کہ میری خالہ نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ لیا اور وہ دوسری مرتبہ طلاق نہیں  کہہ سکا ،حاضرین مجلس بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ دوسری مرتبہ اس نے طلاق کے الفاظ نہیں کہے ہیں اور شوہر کا بیان بھی یہی ہے ۔مذکورہ لڑائی کے شروع میں مجھے شک ہے کہ اس نے مجھے یہ بھی کہا کہ "میں تجھے ابھی چھوڑتا ہوں "لیکن میرے شوہر کہتے ہیں میں نے یہ نہیں کہا ہے اور اس پر قسم بھی کھا سکتا ہوں ۔شریعت کی روشنی میں بتائیں کہ کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں ؟ہم دونوں ساتھ رہنا چاہتے ہیں تو کیا رہ سکتے ہیں ؟

جواب

1)صورت مسئولہ میں سائلہ کا بیان اگر واقعۃً صحیح  ہے کہ  شوہر نے لڑائی کے دوران  سب کے سامنے  یہ کہا کہ "میں تمہیں طلاق دیتا ہوں" تو اس سے سائلہ پر  ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی ہے،سائلہ کے شوہر کو عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور حمل کی صورت میں بچہ کی پیدائش تک)میں رجوع کا حق ہے ،رجوع کی صورت میں سائلہ کے شوہر کو آئندہ دو طلاقوں کا اختیار ہو گا ۔اگر عدت کے اندر رجوع نہیں کیا تو عدت کے بعد  نکاح ختم ہوجائے گا،پھر دوبارہ ساتھ رہنے کے لیے  نئے مہر اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نئے ایجاب و قبول  کے ساتھ  تجدید نکاح کرنا ضروری ہوگا۔

2)"آج سے میراتیرا رشتہ ختم" یا "ہم الگ ہو جاتے ہیں " ان الفاظ سے شوہر کی نیت چونکہ طلاق دینے کی نہیں تھی اس لیے ان الفاظ سے کوئی طلاق واقع نہیں ہوئی ۔

3)"میں تجھے ابھی چھوڑتا ہوں "ان الفاظ کے بولنے یا نہ بولنے پر چونکہ شک ہے لہذا اس سے بھی کوئی طلاق واقع نہیں ہو گی ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"أما الطلاق الرجعي فالحكم الأصلي له هو نقصان العدد، فأما زوال الملك، وحل الوطء فليس بحكم أصلي له لازم حتى لا يثبت للحال، وإنما يثبت في الثاني بعد انقضاء العدة، فإن طلقها ولم يراجعها بل تركها حتى انقضت عدتها بانت، وهذا عندنا۔"

(کتاب الطلاق، فصل فی حکم الطلاق    ص:۴۹۱/ ج:۴/ط :رشیدیہ)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"واذا طلق الرجل امراتہ تطلیقۃ رجعیۃ او  تطلیقتین  فلہ ان یراجعها فی عدتهارضیت بذلک او لم ترض کذا فی الهدایۃ۔"

(الباب السادس فی الرجعۃ، کتاب الطلاق، ص/۴۷۰، ج/۱، ط/رشیدیہ)

الدر المختار میں ہے:

"علم أنه حلف ولم يدر بطلاق أو غيره لغا كما لو شك أطلق أم لا. ولو شك أطلق واحدة أو أكثر بنى على الأقل۔"

(رد المحتار کتاب الطلاق ،باب صریح الطلاق ج:3   /ص:283  /ط:سعید)

بدائع الصنائع میں ہے:

وأما حكم الطلاق البائن فالطلاق البائن نوعان: أحدهما الطلقات، والثاني الطلقة الواحدة البائنة، والثنتان البائنتان، ويختلف حكم كل واحد من النوعين وجملة الكلام فيه أن الزوجين أما إن كانا حرين.وأما إن كانا مملوكين.وأما إن كان أحدهما حرا، والآخر مملوكا فإن كانا حرين فالحكم الأصلي لما دون الثلاث من الواحدة البائنة، والثنتين البائنتين هو نقصان عدد الطلاق، وزوال الملك أيضا حتى لا يحل له وطؤها إلا بنكاح جديد ولا يصح ظهاره، وإيلاؤه ولا يجري اللعان بينهما ولا يجري التوارث ولا يحرم حرمة غليظة حتى يجوز له نكاحها من غير أن تتزوج بزوج آخر؛ لأن ما دون الثلاثة - وإن كان بائنا - فإنه يوجب زوال الملك لا زوال حل المحلية۔"

(کتاب الطلاق ج:3/ص:187 /ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144303100332

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں