اگر کوئی شخص اپنے عاقل و بالغ بچوں کے سامنے کہے کہ’’ میں نے تمہاری والدہ کو چھوڑ دیا ‘‘تو کیا اس سے طلاق واقع ہوگی یا نہیں ؟اور بیوی کے سامنے انکاری بنے تو طلاق کا کیا حکم ہوگا ؟
صورتِ مسئولہ اگر شوہر نے اولاد کے سامنے یہ الفاظ بولے ہیں کہ ’’میں نے تمہاری والدہ کو چھوڑ دیا‘‘ اور اب شوہر ان الفاظ کے کہنے کا انکار کررہا ہے اور بیوی دعویٰ کرتی ہے کہ آپ نے مذکورہ الفاظ کہے ہیں ،اورایک مرتبہ مذکورہ الفاظ کہنے کا دعویٰ کرتی ہے اور اس سے پہلے شوہر نے کوئی طلاق نہ دی ہو،تو میاں بیوی ایک ساتھ رہ سکتے ہیں،شوہر کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے باقی ایک طلاق واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟اس صورت میں دونوں کسی ماہر مستند عالم یا مفتی کو اپنے درمیان فیصلہ کا اختیار دے کر ان سے فیصلہ کرالیں حسب ضابطہ شرعی وہ جو فیصلہ کریں۔
مشکاۃ المصابیح میں ہے :
"عن عمرو بن شعيب عن أبيه عن جده أن النبي صلى الله عليه وسلم قال: البينة على المدعي واليمين على المدعى عليه . رواه الترمذي."
( كتاب الإمارة والقضاء، باب الأقضية والشهادات، 1112/2، الرقم :3769، ط:المكتب الإسلامي)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
"ويصح التحكيم فيما يملكان فعل ذلك بأنفسهما وهو حقوق العباد ولا يصح فيما لا يملكان فعل ذلك بأنفسهما، وهو حقوق الله تعالى حتى يجوز التحكيم في الأموال والطلاق والعتاق والنكاح والقصاص وتضمين السرقة."
(كتاب أدب القاضي،الباب الرابع والعشرون في التحكيم،397/3،ط:دار الفكر)
فتاوی شامی میں ہے:
"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."
(كتاب الطلاق، باب الکنایات، 399/3، ط: دارالفکر)
وفیہ ایضا:
"وعلمت أن المرأة كالقاضي لا يحل لها أن تمكنه إذا علمت منه ما ظاهره خلاف مدعاه."
(كتاب الطلاق، باب الكنايات، 305/3، ط:دار الفكر بيروت)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144603101506
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن