بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

5 ذو القعدة 1445ھ 14 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میں نے تجھے چھوڑدیا کہنے سے طلاق کا حکم


سوال

 میرا سوال یہ ہے کہ میاں بیوی فون پر بات چیت کرتے ہوئے جھگڑنے لگے، تو بیوی نے شوہر سے طلاق کا مطالبہ کیا اور کہا کہ" آپ مجھےچھوڑ دیجیے" تو جواب میں شوہر نے کہا کہ" میں نے  تجھے چھوڑ دیا "،یہ بات سنتے ہی اس کی بیوی  نے کال کٹ کر دی, پھر دوبارہ فون کیااور پوچھا کہ" کیا آپ نے مجھے چھوڑ دیا" توشوہر نے جواب دیا کہ" ہاں میں نے چھوڑ دیا"، اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس کی بیوی پر طلاق واقع ہوگئی یا نہیں؟ اگر ہوئی تو کتنی طلاق واقع ہوئی؟ اور کون سی طلاق واقع ہوئی؟ اب کیا وہ دونوں ایک ساتھ رہ سکتے ہیں یا نہیں؟

جواب

واضح رہے کہ :"میں نے تجھے  چھوڑ دیا "،  طلاق کے  صریح الفاظ ہیں، بغیر نیت کے بھی طلاق واقع ہوجاتی ہے؛لہذاصورتِ مسئولہ میں شوہر نے جب  اپنی بیوی کو  اس کے طلاق کے  مطالبے پر کہ"آپ مجھے چھوڑ دیجیے " کے جواب میں اپنی بیوی  کو  یہ الفاظ کہے"  میں نے تجھے چھوڑ دیا" سے  بیوی پر  ایک طلاق رجعی واقع ہوگئی، شوہر عدت کے دوران  اپنی بیوی سے رجوع کرنا چاہے تو  عدت کے دوران رجوع کرسکتا ہے ،اگر عدت گزر گئی تو دوبارہ نئے مہر و گواہو ں کے ساتھ دوبارہ نکاح کر سکتا ہے ، اس  صورت میں  شوہر  کے پاس مزید  دو  طلاق کا اختیار باقی ہوگا۔واضح رہے کہ دوسری مرتبہ فون ملانے کے بعد بیوی نے کہا "کیا آپ نے مجھے چھوڑ دیا "اور شوہر نے جواب میں کہا کہ "ہاں میں نے تجھے چھوڑ دیا "اگر ان الفاظ سے شوہر کا مقصد پہلے والی طلاق کی خبر دینا ہے تو اس سے  مزید کوئی طلاق واقع نہیں ہوگی،البتہ اگر ان الفاظ سے شوہر کی نیت  طلا ق کی خبر دینا نہ ہو بلکہ ایک اور طلاق دینا ہو تو اس صورت میں اس لفظ سے ایک اور  طلاق رجعی واقع ہوجائے گی اور عدت کے دوران رجوع کا حق حاصل ہوگا ،اور اس صورت میں شوہر کے پاس صرف ایک طلاق کا اختیار باقی رہے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف فارسية قوله سرحتك وهو " رهاء كردم " لأنه صار صريحا في العرف على ما صرح به نجم الزاهدي الخوارزمي في شرح القدوري اهـ وقد صرح البزازي أولا بأن: حلال الله علي حرام أو الفارسية لا يحتاج إلى نية، حيث قال: ولو قال حلال " أيزدبروي " أو حلال الله عليه حرام لا حاجة إلى النية، وهو الصحيح المفتى به للعرف وأنه يقع به البائن لأنه المتعارف ثم فرق بينه وبين سرحتك فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال " رهاكردم " أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا، وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الفرس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت."

(کتاب الطلاق، باب الکنایات،ج:3،ص:399،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144411101924

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں