بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

میں نے فلاں کام مکمل کیا تو میں خیرات کروں گا کا حکم


سوال

 اگر کوئی شخص یہ کہے کہ اگر میں نے فلاں کام مکمل کیا تو میں خیرات کروں گا اب انہوں نے وہ کام مکمل کر لیا، اب پوچھنا یہ ہے کہ آیا یہ اس کی طرف سےنذر ہوگی یا صدقہ نافلہ ہو گا؟

جواب

صورت مسئولہ میں مذکورہ  شخص نے جو مذکورہ جملہ "اگرمیں نے  فلاں  کام مکمل  کیا تو میں خیرات  کروں گا" کہا ہے تو چونکہ اس جملہ میں الفاظ شرط و جزا کی تعلیق ہے اور وہ قابل عمل بھی ہیں ، اس لیے یہ نذر کے حکم میں ہے، اور ذکر کردہ کام پورا ہونے پر خیرات کرنا لازم ہوگا ،البتہ چوں کہ مقدار خیرات کی وضاحت نہیں ہے، لہذا اگر مذکورہ شخص نے کسی خاص مقدار کی نیت کی تھی تو اتنی مقدار خیرات کرنا لازم ہوگا ، اور اگر کسی خاص مقدار کی نیت نہیں کی تھی تو  پھر دس صدقہ فطر کی مقدار خیرات کرے۔ 

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"الباب الأول في تفسيرها شرعا وركنها وشرطها وحكمها (أما تفسيرها شرعا) فاليمين في الشريعة عبارة عن عقد قوي به عزم الحلف على الفعل أو الترك كذا في الكفاية.

وهي نوعان: يمين بالله تعالى، أو صفته، ويمين بغيره، وهي تعليق الجزاء بالشرط كذا في الكافي۔۔۔۔۔۔۔

(وأما ركن اليمين بالله) فذكر اسم الله، أو صفته، وأما ركن اليمين بغيره فذكر شرط صالح، وجزاء صالح كذا في الكافي

والشرط الصالح ما يكون معدوما على خطر الوجود، والجزاء الصالح ما يكون متيقن الوجود، أو غالب الوجود عند وجود الشرط، وذلك بأن يكون مضافا إلى الملك، أو إلى سببه، وأن يكون الجزاء مما يحلف به حتى لو لم يكن كذلك لا يكون يمينا."

(کتاب الایمان، ج:2، ص:51، ط:دار الفكر بيروت)

بدائع الصنائع میں ہے:

" فركن النذر هو الصيغة الدالة عليه وهو قوله: " لله عز شأنه علي كذا، أو علي كذا، أو هذا هدي، أو صدقة، أو مالي صدقة، أو ما أملك صدقة، ونحو ذلك".

(كتاب النذر،ج: 5،  ص:  81، ط: دار الكتب العلمية)

فتاوی ہندیہ میں ہے؛

"من نذر نذرا مطلقا فعلیہ الوفاء بہ کذا  فی الھدایہ."

(الفصل الثانی فی الکفارہ، ج: 2، ص: 65،ط: دار الفکر بیروت)

فتاوی شامی میں ہے:

"قال علي نذر ولم يزد عليه ولا نية له فعليه كفارة يمين) ولو نوى صياما بلا عدد لزمه ثلاثة أيام ولو صدقة فإطعام عشرة مساكين كالفطرة ولو نذر ثلاثين حجة لزمه بقدر عمره."

(کتاب الایمان، ج: 3، ص:742، ط: دار الفكر-بيروت)

العرف الشذی حاشیہ سنن ترمذی میں ہے:

"ومنھا انہ عمل اللسان لا القلب فقط ، وصیغتہ صیغہ الشرط والجزاء."

(ابواب النذروالایمان ،ج:1، ص:279، ط: سعید)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144508100821

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں