بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محض جدا رہنے سے طلاق کا اور گزشتہ سالوں کے نان نفقہ کا مطالبہ کرنے کا حکم


سوال

جناب میری بہن ہے جس کی شادی میں نے سن 2005 کو کروائی تھی،  اس کی شادی کے  دو سال چار ماہ بعد ایک بیٹے  کی ولادت ہوئی،  اس کے پچیسویں دن ان کے چچا اس بچے اور اس کی ماں (یعنی ہماری بہن )کو ہمارے گھر لے آئے گھریلو جھگڑوں کی وجہ سے، اور کہا کہ   میرا بھائی  (یعنی شوہر)اس کو مارتا ہے اور خرچہ نہیں دیتا،  اس وجہ سے میں ان کو تمہارے گھر چھوڑ کے جا رہا ہوں،  اس کے کچھ عرصہ بعد پھر ہم نے ان کے پاس ایک جرگہ بھیجا کہ آؤ ، ہمارے ساتھ بیٹھ کر اس بچے کے بارے میں بات کر لو ، لیکن یہ لوگ نہیں آئے،  پھر اس کے بعد بھی کئی  کئی بار ہم نے ان کو بلانے کے لیے جرگہ بھیجا لیکن یہ لوگ نہیں آئے،  حتی کہ اب یہ بچہ 16 سال کا ہو گیا ہے،  قران کریم کا حافظ بھی ہے،  اور اسکول بھی پڑھتا ہے،  اس دوران ان لوگوں نے نہ میری بہن اور نہ اس بچے کا خرچہ دیا ہے ، اور نہ انہوں نے کوئی رابطہ کیا ہے ۔

اب   اس صورت میں شریعت کے حساب سے میری بہن کا نکاح ختم ہو چکا ہے یا نہیں؟ اس بارے میں ہمیں آپ لوگوں کا  فتویٰ چاہیے،  کہ  مذکورہ خاتون کے لیے کیا  حکم ہے؟

دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اس بچہ اور ان کی ماں کا جو ہم نے ان کو 16 سال رکھا  ہے ہم ان کے شوہر والوں سے ان کے نان  نفقہ  کے مطالبہ کا حق رکھتے ہیں یا نہیں؟ اس بارے میں شریعت کیا کہتی   ہے،  یعنی بچے کے نان نفقہ کا  کیا حکم ہے؟ نیز بچے کے  شناختی کارڈ وغیرہ کے مسائل ہیں،  اور تعلیم کے مسائل ہیں والد اس کے لیے تیار نہیں ہے تو اس کا کیا حکم ہے ؟

جواب

1)واضح رہے کہ شوہر کے طلاق یا خلع دیے بغیر  لمبی مدت میاں بیوی کے  جدا رہنے کی وجہ سے طلاق واقع نہیں ہوتی ۔

لہذا  صورتِ مسئولہ میں سائل کی بہن کا نکاح برقرار ہے،  ختم نہیں ہوا ، تاہم اگر شوہر نہ  بیوی   کے حقوق ادا  کرتا ہے،  اور نہ نان نفقہ دے رہا ہے،  تو اسے چاہیے    کہ  بیوی کے معاملہ کو لٹکانے  او ر اس  پر ظلم کرنے کی  بجائے  ایک طلاق دے کر یا خلع پر رضامندی ظاہر کرکے   نکاح کو ختم کردے، بیوی کی حق تلفی کرنا ، حقوقِ زوجیت ادا نہ کرنا، نان نفقہ نہ دینا ،  نہ ہی طلاق پر رضامند ہونا  ،یہ مسلسل اور مستقل گناہ شوہر کے کاندھے پر ہیں، اس لیے اس میں اسے مثبت فیصلہ کرنا چاہیے؛ تاکہ آخرت میں اس کا معاملہ بھی کہیں یوں لٹک نہ جائے، اور اگر شوہر   حقوق  ادا نہیں کرتا،     طلاق    نہیں دیتا اور  خلع پر بھی  رضا مند نہیں  ہوتا، تو اس صورت میں  بیوی   کو  عدالت سے نان نفقہ نہ دینے، اور حقوقِ زوجیت ادا نہ کرنے  کی وجہ سے  تنسیخ نکاح  کا حق حاصل ہوگا، جس کا طریقہ یہ  ہے کہ  بیوی   عدالت سے رجوع کرے اور گواہوں کی گواہی سے ثابت کرے کہ  شوہر نہ تو نان نفقہ ادا کرتا ہے اور نہ ہی ازدواجی حقوق ادا کررہا ہے،    عدالت میں یہ دعوی ثابت ہوجانے کے بعدبھی اگر شوہر حقوق ادا نہیں کرتا  تو عدالت  تنسیخِ  نکاح کی ڈگری جاری کرسکتی ہے، اس کے بعد عدت گزار کر عورت کہیں اور نکاح کرسکے گی۔

2)صورتِ مسئولہ میں سائل کے لیے  گزشتہ سالوں  کے خرچہ  کا مطالبہ کرنا   درست نہیں ہے، کیوں کہ گزشتہ  ایام کا نفقہ شوہر  پر دین نہیں بنتا، ہاں اگر  میاں بیوی نے آپس کی رضا مندی سے یا عدالت نے  شوہر پر متعین خرچہ دینا  مقرر کیا ہو تو پھر دین بن کر گزشتہ ایام کا نفقہ  دینا شوہر پر  لازم ہوتا ہے، تو ایسی صورت میں مطالبہ درست ہوگا،  اسی طرح  اگرسولہ سالہ بیٹا  کماتا نہیں، اور ضرورت مند ہے تو اس کا خرچہ او ر  تعلیمی اخراجات باپ پر لازم ہیں، اور بچے کے   شناختی کارڈ  میں والد کے خانے میں حقیقی والد کا نام لکھنا ضروری ہے، شناختی کارڈ بنوانے کے سلسلے میں والد کے تعاون کی ضرورت ہو تو والد بیٹے کا تعاون کرے  ۔

1)الهداية في شرح بداية المبتدي میں ہے:

"ولأن ‌الامتناع ‌عن ‌قربانها في أكثر المدة بلا مانع وبمثلة لا يثبت حكم الطلاق فيه ."

 (‌‌باب الإيلاء، ج:2، ص:259، ط:دار احياء التراث العربي)

فتاویٰ شامی میں ہے:

"(قوله وركنه لفظ مخصوص) هو ما جعل دلالة على معنى الطلاق من صريح أو كناية فخرج الفسوخ على ما مر، وأراد اللفظ ولو حكما ليدخل الكتابة المستبينة وإشارة الأخرس والإشارة إلى العدد بالأصابع في قوله أنت طالق هكذا كما سيأتي.وبه ظهر أن من تشاجر مع زوجته فأعطاها ثلاثة أحجار ينوي الطلاق ولم يذكر لفظا لا صريحا ولا كناية لا يقع عليه كما أفتى به الخير الرملي وغيره، وكذا ما يفعله ‌بعض ‌سكان ‌البوادي من أمرها بحلق شعرها لا يقع به طلاق وإن نواه."

(کتاب الطلاق،ركن الطلاق، ج:3 ، ص:230، ط:سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"إذا تشاق الزوجان وخافا أن لا يقيما حدود الله فلا بأس بأن تفتدي نفسها منه بمال يخلعها به فإذا فعلا ذلك وقعت تطليقة بائنة ولزمها المال كذا في الهداية..(وشرطه) شرط الطلاق(وحكمه) وقوع الطلاق البائن كذا في التبيين. و تصح نية الثلاث فيه. و لو تزوجها مرارًا و خلعها في كل عقد عندنا لايحل له نكاحها بعد الثلاث قبل الزوج الثاني، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان."

(کتاب الطلاق،‌‌الباب الثامن في الخلع،‌‌  الفصل الأول في شرائط الخلع وحكمه وما يتعلق به، ج:1،ص:488، ط؛دار الفکر)

2)فتاوی شامی میں ہے:

" (والنفقة لا تصير دينا إلا بالقضاء أو الرضا) أي اصطلاحهما على قدر معين أصنافا أو دراهم، فقبل ذلك لا يلزم شيء، وبعده ترجع بما أنفقت ولو من مال نفسها بلا أمر قاض. (قوله : والنفقة لا تصير دينا إلخ) أي إذا لم ينفق عليها بأن غاب عنها أو كان حاضرا فامتنع فلا يطالب بها بل تسقط بمضي المدة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، مطلب لا تصير النفقة دينا إلا بالقضاء أو الرضا، ج:3، ص:594،  ط: سعيد)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

‌"نفقة الأولاد الصغار على الأب لا يشاركه فيها أحد كذا في الجوهرة النيرة....الذكور من الأولاد إذا بلغوا حد الكسب و لم يبلغوا في أنفسهم يدفعهم الأب إلى عمل ليكسبوا أو يؤاجرهم و ينفق عليهم من أجرتهم وكسبهم، و أما الإناث فليس للأب أن يؤاجرهن في عمل أو خدمة، كذا في الخلاصة."

(كتاب الطلاق، باب النفقة، الفصل الرابع في ‌نفقة ‌الأولاد،ج:1، ص:562، ط: دارالفكر بيروت)   

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100020

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں