بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محض اسٹامپ پیپر پر دستخط کرنے سے نکاح کا حکم


سوال

میرے والد نے میری منگنی کرادی،  بعد ازاں اسٹامپ پیپر پر سب کچھ لکھ دیا ، جس پر میرے والد اور سسرال والوں میں کسی کے دستخط تھے ، ان سب میں ، میں بالکل موجود نہیں تھا ،  دو سال بعد جب میری شادی ہوی ، تو کوئی نکاح وغیرہ نہیں پڑھایا گیا اور ہم نے سُہاگ رات بھی منایا،  تو سوال یہ ہے کہ کیا اِس طرح نکاح ہوجاتا ہے ہمارے ایجاب و قبول اور موجودگی کے بغیر ؟

جواب

واضح رہے کہ ایک ہی مجلس میں ا سٹامپ پیپر  پرمحض   لڑکےاورلڑکی کادستخط کرنے سے  یا پھر اِن دونوں کی  اجازت سے  اُن کے اقرباءکا دستخط کرنے سے نکاح منعقد نہیں ہو تا ،بلکہ  گواہوں کی موجودگی    شرعی طریقے  کے مطابق  زبان سے  ایجاب وقبول کرانا بھی ضروری ہے۔

لہذا  صورت مسئولہ میں  اگر لڑکے اور لڑکی  کے اقرباء نے   اسٹامپ پیپر پر دستخط کرنے سے پہلے یابعد میں گواہوں کی موجودگی میں  شرعی طریقے کے مطابق ایجاب وقبول   کیاتھااور لڑکے نے عملاً اس کی اجازت دےدی تو یہ    نکاح منعقد  ہوچکاہے۔

اور اگر  اسٹامپ پیپر پر دستخط کے علاوہ الفاظِ ایجاب وقبول  ادا نہیں کیے گیے ہیں ،تو پھر مذکورہ نکاح ابھی تک منعقد نہیں ہواہے، لڑکا اور لڑکی دونوں گناہ میں  مبتلا ہیں ،اس لیے فوری   طور پر گواہوں کی موجودگی میں نئے مہر کے ساتھ   لڑکا اور لڑکی ایجاب وقبول  کرلیں  اور اب تک  جو وقت دونوں نے ایک ساتھ گزاراہے اِس پر  اللہ سے توبہ واستغفار کرلیں۔

فتاویٰ شامی میں ہے:

"فلا ينعقد) بقبول بالفعل كقبض مهر ولا بتعاط ولا بكتابة حاضر بل غائب بشرط إعلام الشهود بما في الكتاب ما لم يكن بلفظ الأمر فيتولى الطرفين فتح(قوله: ولا بكتابة حاضر) فلو كتب تزوجتك فكتبت قبلت لم ينعقد بحر والأظهر أن يقول فقالت قبلت إلخ إذ الكتابة من الطرفين بلا قول لا تكفي ولو في الغيبة، تأمل۔"

(كتاب النكاح، 12/3، ط:سعید)

فتاویٰ ہندیہ میں ہے:

"وتثبت الإجازة لنكاح الفضولي بالقول والفعل، كذا في البحر الرائق رجل زوج رجلا امرأة بغير إذنه فبلغه الخبر فقال: نعم ما صنعت، أو بارك الله لنا فيها، أو قال: أحسنت، أو أصبت؛ كان إجازة، كذا في فتاوى قاضي خان وهو المختار اختاره الشيخ أبو الليث، كذا في المحيط وإذا علم أنه أراد به الاستهزاء بسوق الكلام على وجه الاستهزاء فحينئذ لا يكون إجازة ولو هنأه القوم فقبل التهنئة كان إجازة هكذا في فتاوى قاضي خان وفي الحجة قال الفقيه: وبه نأخذ، كذا في التتارخانية۔"

(كتاب النكاح، الباب السادس في الوكالة بالنكاح وغيرها، 299/1، ط:دار الفکر)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144509101544

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں