بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہ واری ختم ہونے کے بعد جماع


سوال

کیا زوجہ کے پاک ہوئے بغیر پیریڈ کے ایام  مکمل  ہونے کے بعد  زوجہ سے ملاقات ہوسکتی ہے؟یا زوجہ کو پہلے پاک ہونا چاہیے؟اور اگر پاک ہونے سے پہلے ملاقات کرلی ہو تو اس کا کوئی کفارہ نہیں ہے؟

جواب

عورت کے ماہواری سے پاک ہونے میں تفصیل  یہ ہے کہ اگر حیض اپنی پوری مدت یعنی دس دن  میں ختم ہو اہے توخون منقطع ہوتے ہی   غسل سے قبل  عورت  سے مجامعت درست ہے ،اگرچہ بہتر یہ ہے کہ غسل کے بعدہمبستری کرے۔اور اگر دس دن سے پہلے ماہواری ختم ہو گئی ، مثلاً: چھ ،سات روز میں اور عورت کی عادت بھی چھ یا سات روز کی تھی تو خون کے موقوف ہوتے ہی  ہمبستری درست نہیں، بلکہ حیض ختم ہونے کے بعد جب عورت غسل کر لے یا ایک نماز کا وقت گزر جائے (جس میں غسل کرکے کپڑے پہن کر نماز شروع کرسکے)  اس کے بعد مجامعت درست ہو گی۔ اور اگر عادت کے ایام سے پہلے ہی خون بند ہوگیا ہو اس صورت میں عادت کے ایام مکمل ہونے سے پہلے ہمبستری جائز نہیں، ممکن ہے کہ وقتی طور پر خون بند ہواہو اور دوبارہ لوٹ کر آجائے، باقی اگر لاعلمی میں اس کے خلاف کرلیا تو  شرعا اس پر کفارہ لاز م نہیں ہے بلکہ توبہ واستغفار لازم ہے ،اور اپنی استعداد کے مطابق کچھ رقم صدقہ کردیں ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"لا يحل" الوطء "إن انقطع" الحيض والنفاس عن المسلمة "لدونه" أي دون الأكثر ولو "لتمام عادتها" إلا بأحد ثلاثة أشياء: إما "أن تغتسل"؛ لأن زمان الغسل في الأقل محسوب من الحيض وبالغسل خلصت منه، وإذا انقطع لدون عادتها لا يقربها حتى تمضي عادتها؛ لأن عوده فيها غالب فلا أثر لغسلها قبل تمام عادتها، أو تتيمم" لعذر "وتصلي" على الأصح؛ ليتأكد التيمم لصلاة ولو نفلاً، بخلاف الغسل؛ فإنه لا يحتاج لمؤكد. والثالث ذكره بقوله: "أو تصير الصلاة ديناً في ذمتها، وذلك بأن تجد بعد الانقطاع "لتمام عادتها" من الوقت الذي انقطع الدم فيه زمناً يسع الغسل والتحريمة فما فوقهما، و" لكن "لم تغتسل" فيه "لم تتيمم حتى خرج الوقت" فبمجرد خروجه يحل وطؤها؛ لترتيب صلاة ذلك الوقت في ذمتها وهو حكم من أحكام الطهارات."

(کتاب الطھارۃ،باب الحیض والنفاس والاستحاضة ،ص: 62،المكتبة العصرية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں