بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کی وجہ سے چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا کا حکم / طلاق کی عدت کی ابتدا کب سے ہوگی؟


سوال

1-  رمضان کے جوروزے  ماہواری (حیض )  کی وجہ سے چھوٹ گئے ہیں ، کیا ان کی قضا  ضروری ہے  یا کوئی اور صورت بھی ہے ؟

2- اگر شوہر اور بیوی میں ایک سال سے علیحدگی تھی ،شوہر پاکستان میں تھا اور بیوی امریکا  میں رہ رہی تھی ،اب  طلاق ہوگئی ہے ،کیا اس صورتِ حال  میں بیوی کو  عدت کی مدت پوری کرنی ہو گی ؟

جواب

۱۔ماہواری کی وجہ سے جتنے روزے قضا  ہوئے ہیں ان سب کی قضا  کرنا  لازم ہے ، صحت مند اور تندرست عورت پر  روزہ کی قضا رکھنا  ہی لازمی ہے، اس کے علاوہ اور کوئی صورت نہیں ہے ،البتہ  اگر انتہائی بڑھاپے یا دائمی بیماری کی وجہ سے روزہ رکھنے کی سرے سے قدرت ہی نہ ہو اور آئندہ زندگی بھر صحت کی بحالی کی امید نہ ہو تو پھر   قضا روزوں کا فدیہ ادا کرسکتی ہے،  اور  ایک روزے کا فدیہ ایک صدقہ فطر کے برابر ادا کرنا ہوگا، لیکن انتقال سے پہلے عذر دور ہونے کی صورت میں فدیہ باطل ہوجائے گا اور روزے کی قضا لازم ہوجائے گی۔

2- عدت کی ابتدا طلاق کے بعد سے ہوتی ہے ،لہذا صورتِ مسئولہ  میں جس وقت شوہر نے طلاق دی ہے ،اس کے بعد سے عدت کی مدت پوری کرنا لازم ہے ،اگرچہ  عورت پہلے سے شوہر سے الگ ہو ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"وفي القنية: ولا فدية في الصلاة حالة الحياة بخلاف الصوم. اهـ أقول: ووجه ذلك أن النص إنما ورد في الشيخ الفاني أنه يفطر ويفدي في حياته، حتى إن المريض أو المسافر إذا أفطر يلزمه القضاء إذا أدرك أياما أخر وإلا فلا شيء عليه، فإن أدرك ولم يصم يلزمه الوصية بالفدية عما قدر، هذا ما قالوه، ومقتضاه أن غير الشيخ الفاني ليس له أن يفدي عن صومه في حياته لعدم النص ومثله الصلاة؛ ولعل وجهه أنه مطالب بالقضاء إذا قدر، ولا فدية عليه إلا بتحقيق العجز عنه بالموت فيوصي بها، بخلاف الشيخ الفاني فإنه تحقق عجزه قبل الموت عن أداء الصوم وقضائه فيفدي في حياته، ولايتحقق عجزه عن الصلاة لأنه يصلي بما قدر ولو موميا برأسه، فإن عجز عن ذلك سقطت عنه إذا كثرت، ولا يلزمه قضاؤها إذا قدر كما سيأتي في باب صلاة المريض، وبما قررنا ظهر أن قول الشارح بخلاف الصوم أي فإن له أن يفدي عنه في حياته خاص بالشيخ الفاني، تأمل".

 (2/74، باب قضا ء الفوائت، ط؛ سعید)

وفي الفتاوى الهندية:

"ابتداء العدة في الطلاق عقيب الطلاق."(1/ 531ط:دار الفكر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 200107

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں