عورت کی حیض کی عادت 6 دن ہو، 6 دن پورا ہونے پررات کو حیض رک گیا ،خون باہر بالکل نہیں آرہا تھا،پیڈ بھی صاف تھا،اب اگلے روز یعنی ساتویں دن کو دوپہر کے وقت جماع کے دوران جب کوئی چیز اندام نہانی میں داخل کی اور باہر نکال دی تو اس چیز پر خون کے دھبے تھے،تو کیا یہ حیض شمار ہوگا یا نہیں اور اس عورت پر اس دن کی صبح کی نماز نہ پڑھنے سے اس کی قضا ہوگی یا نہیں؟
واضح رہے کہ جب تک خون اندامِ نہانی کی اندرونی جانب سے بیرونی جانب نہ آجائے اس وقت تک اسے حیض کا خون نہیں کہا جائے گا،صورتِ مسئولہ میں چوں کہ خون اندامِ نہانی کے اندر ہی تھا باہر نہیں نکلا تھا ،تو جماع کے بعد مذکورہ صورت میں دھبہ دیکھنے سے حیض شمار نہیں ہوگا ، لہذا اس خاتون پر مذکورہ دن کی صبح کی نمازلازم تھی نہ پڑھنے کی وجہ سے قضا لازم ہے۔
بدائع الصنائع میں ہے:
"(وأما) خروجه فهو أن ينتقل من باطن الفرج إلى ظاهره إذ لا يثبت الحيض، والنفاس، والاستحاضة إلا به في ظاهر الرواية...وجه ظاهر الرواية ما روي أن امرأة قالت لعائشة - رضي الله عنها - أن فلانة تدعو بالمصباح ليلا فتنظر إليها فقالت عائشة - رضي الله عنها - «كنا في عهد رسول الله - صلى الله عليه وسلم - لا نتكلف لذلك إلا بالمس" والمس لا يكون إلا بعد الخروج، والبروز."
(كتاب الطهارة، فصل الحيض وأحكامه، ج:1، ص:153، ط: دار إحياء التراث العربي)
فتاوی شامی میں ہے:
"أنه لا يثبت الحيض إلا بالبروز لا بالإحساس به خلافا لمحمد، فلو أحست به فوضعت الكرسف في الفرج الداخل ومنعته من الخروج فهي طاهرة كما لو حبس المني في القصبة."
(كتاب الطهارة، باب الأنجاس، ج:1، ص:308، ط: سعيد)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144409100044
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن