بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے ایام میں بیوی سے استمتاع کی حد


سوال

شادی کے سات سال تک شوہر حالت حیض میں بیوی کی پیٹھ اور فرج کے اوپر اوپر بغیر حائل کے عضو رگڑ کر فارغ ہوتا رہا،بیوی کو تب معلوم نہ تھاکہ یہ بھی ناجائز ہے، لہٰذا ایسا کرنے سے منع نہیں کیا، کبھی کبھار زبردستی فرج میں بھی داخل کردیا، جب کہ بیوی راضی نہ تھی، بیوی دونوں صورتوں میں کس حد تک گناہ گار ہوئی؟ مزید یہ کہ شوہر اب بھی حالتِ حیض میں بیوی کی ننگی پیٹھ پر عضو رگڑے، جب کہ بیوی نہ چاہتی ہو تو اس صورت میں بیوی کیا کرے ؟جب کہ خاوند کے غصے کا اندیشہ ہو اور خاوند اپنی شدت خواہش سے مجبور ہو؟ اگر خاوند کو یقین ہو کہ وہ فرج میں داخل نہ کرے گا تو اس صورت میں فرج یا پیٹھ کے اوپر اوپر عضو رگڑ کر فارغ ہونے کی گنجائش ہے؟

جواب

شوہر کے لیے بیوی سے اس کی  ماہواری کے ایام میں  ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصہ سے بغیر حائل کے نفع اٹھانا  شرعاً ممنوع قرار دیاگیا ہے، البتہ اس حصہ کے علاوہ باقی تمام بدن سے  فائدہ اٹھانے کی شرعاً اجازت ہے۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں ماہواری کے ایام میں شوہر کا بیوی کی فرج اور پیٹھ (ناف سے نیچے) سے کسی حائل کے بغیر نفع اٹھانا جائز نہیں تھا، ایسا کرنے میں چونکہ بیوی کی رضامندی بھی شامل تھی اس لیے دونوں ہی گناہ گار ہیں، دونوں پر سچے دل سے توبہ و استغفار لازم ہے،اور اگر اسی حالت میں کبھی فرج میں دخول بھی ہوا ہے تو ایسا کرنابنصِ قرآنی قطعاً حرام و ناجائز ہے،  اگر زوجین نے باہمی  رضامندی سے اس گناہ کا ارتکاب کیا ہےتو دونوں گناہ گار ہیں، دونوں پر سچے دل سے  استغفار لازم ہے، البتہ اگر غلطی سے اس گناہ کا ارتکاب ہوگیا تو  توبہ و استغفار کے بعد  کچھ صدقہ کردیں؛ تاکہ نیکی سے گناہ دھل جائے۔ نیز اگر حیض کے ابتدائی ایام میں (جب کہ خون سرخ ہوتا ہے)  یہ گناہ سہواً سرزد ہوگیا  ہو تو ایک دینار (4.374 گرام سونے کا سکہ) یا  اس کی قیمت صدقہ کریں اور اگر حیض کے آخری ایام میں ایسا ہوا ہو توآدھا دینار (یا اس کی قیمت) صدقہ کریں۔

نیز اگر شوہر آئندہ ایسا کرنا چاہے تو بیوی اسے شرعی مسئلہ سے آگاہ کرے اور جان بوجھ کر اسے ایسا نہ کرنے دے اور شوہر کو بھی چاہیے کہ وہ ناف سے گھٹنوں تک کے حصے سے بغیر حائل کے نفع اٹھانے سے اجتناب کرے، البتہ اگر ناف سے گھٹنوں تک کا حصہ کپڑے سے ڈھکا ہوا ہو تو شوہر کو بیوی کے ساتھ لیٹنے اور حائل کے ساتھ نفع اٹھانے کی اجازت ہے، تاہم اگر اس صورت میں بھی جماع کی جانب راغب ہونے کا احتمال ہوتو اس طریقے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(و) يمنع... (و قربان ماتحت إزار) يعني مابين سرة و ركبة ولو بلاشهوة و حل ماعداه مطلقاً.

(قوله: وقربان ما تحت إزار) ... ويمنع الحيض ‌قربان زوجها ما تحت إزارها كما في البحر. (قوله: يعني ما بين سرة وركبة) فيجوز الاستمتاع بالسرة وما فوقها والركبة وما تحتها ولو بلا حائل، وكذا بما بينهما بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دما."

(كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 292، ط:سعيد)

وفيه أيضا :

"(قوله: ويندب إلخ) لما رواه أحمد وأبو داود والترمذي والنسائي عن ابن عباس مرفوعاً :في الذي يأتي امرأته وهي حائض، قال: يتصدق بدينار أو نصف دينار، ثم قيل: إن كان الوطء في أول الحيض فبدينار أو آخره فبنصفه، وقيل: بدينار لو الدم أسود وبنصفه لو أصفر. قال في البحر: ويدل له ما رواه أبو داود والحاكم وصححه: إذا واقع الرجل أهله وهي حائض، إن كان دماً أحمر فليتصدق بدينار، وإن كان أصفر فليتصدق بنصف دينار."

(كتاب الطهارة، باب الحيض 1/ 298، ط:سعيد)

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144506102447

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں