بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 رمضان 1445ھ 29 مارچ 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے ایام میں بیوی کے ساتھ غیر فطری عمل کا کفارہ


سوال

بیوی کے ساتھ  اَن جانے  میں پچھلی طرف سے خلوت کرنا وہ بھی حیض کے دنوں میں ، اس کی قضا کیا ہوگی؟

جواب

بیوی سے پچھلی شرم گاہ میں صحبت کرنا  ناجائز اور حرام ہے،حدیث شریف میں رسول اللہ ﷺ نے  بیوی کے ساتھ پیچھے کے راستے سے ہم بستری کرنے سے منع فرمایا ہے، اور ایسا فعل کرنے والے پر حدیث میں لعنت وارد ہوئی ہے،  نیز حیض کی حالت میں بیوی کی ناف سے  گھٹنوں کے درمیان  کسی حائل  کے بغیر ہم بستر ہونا  یا اس حصے سے لطف اندوز ہونا ناجائز اور گناہ ہے، لہذا یہ دو گناہ  ایک ساتھ جمع ہوگئے  ہیں، اس لیے  اس پر خوب گرگڑا کر، ندامت کے ساتھ ،  توبہ واستغفار کرنا ضروری ہے  اور آئندہ کے لیے اس کام کے نہ کرنے کا پکا عزم کرنا ضروری ہے،  ا اس عمل کی وجہ  سے اگرچہ نکاح ختم نہیں ہوا ہے،لیکن عادت بنالینے کی صورت میں ایمان سے محرومی کا خطرہ ہے ،اس لیے اسے ہلکا نہ سمجھے،اور آئندہ اس سے بالکلیہ اجتناب کرے۔ اور حسبِ توفیق صدقہ دے دے تو بہتر ہے۔

سنن ابی داود (2/249):

"عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ملعون من أتى امرأته في دبرها»."

الفتاوی الشامیة (1/297):

"(و) وطؤها (يكفر مستحله) كما جزم به غير واحد، وكذا مستحل وطء الدبر عند الجمهور مجتب (وقيل: لا) يكفر في المسألتين، وهو الصحيح خلاصة (وعليه المعول) ؛ لأنه حرام لغيره ولما يجيء في المرتد أنه لا يفتى بتكفير مسلم كان في كفره خلاف، ولو رواية ضعيفة.

(قوله: ووطؤها) أي الحائض قال في الشرنبلالية: ولم أر حكم وطء النفساء من حيث التكفير، أما الحرمة فمصرح بها. اهـ. واعترضه الشارح في هامش الخزائن بقوله وأقول: قد قدم قبل ذلك أن النفساء كالحائض في الأحكام وقال في الجوهرة والسراج الوهاج والضياء المعنوي وغيرها: وحكم النفاس حكم الحيض في كل شيء إلا فيما استثني. وهذا صريح في إفادة هذا الحكم لهذه المسألة؛ لأنها ليست مما استثني كما لا يخفى على المتتبع فتنبه. اهـ. أقول: والمستثنيات سبع ستأتي (قوله : كما جزم به غير واحد) أي جماعة ذوو عدد منهم صاحب المبسوط والاختيار والبدائع كما في البحر (قوله: وكذا مستحل وطء الدبر) أي دبر الحليلة، أما دبر الغلام فالظاهر عدم جريان الخلاف في التكفير وإن كان التعليل الآتي يظهر فيه ط: أي قوله؛ لأنه حرام لغيره. أقول: وسيأتي في كتاب الإكراه أن اللواطة أشد حرمة من الزنا؛ لأنها لم تبح بطريق ما لكون قبحها عقليًّا، ولذا لاتكون في الجنة على الصحيح. اهـ (قوله: خلاصة) لم يذكر في البحر عن الخلاصة مسألة وطء الدبر (قوله: فلعله يفيد التوفيق) أي بحمل القول بكفره على استحلال اللواطة بغير المذكورين والقول بعدمه عليهم (قوله؛ لأنه حرام لغيره) أي حرمته لا لعينه، بل لأمر راجع إلى شيء خارج عنه وهو الإيذاء. قال في البحر عن الخلاصة: من اعتقد الحرام حلالا أو على القلب يكفر إذا كان حراما لعينه وثبتت حرمته بدليل قطعي. أما إذا كان حراما لغيره بدليل قطعي أو حراما لعينه بإخبار الآحاد لا يكفر إذا اعتقده حلالا. اهـ ومثله في شرح العقائد النسفية."

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144211200570

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں