بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے خون آخری ایام میں کم آنے کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

ایک عورت کی حیض کی عادت  ۷ یا ۸ دن کی ہے،  لیکن آخری ۲ یا ۳ دن بہت کم خون آتا ہے، یعنی دن میں تقریباً ایک مرتبہ۔ بہشتی زیور میں حیض سے پاک ہونے کے بارے میں لکھا ہے کہ "جب گدی بالکل سپید رہے" تو اب حیض سے پاک ہو گئی۔ لہذا ان حالات میں آخری ۲-۳ دنوں میں ایسا کئی مرتبہ ہوتا ہے کہ خاتون گدی کو صاف دیکھنے پر غسل کر کے نماز وغیرہ شروع کر دیتی ہیں، اور پھر خون کے دھبے دیکھنے پران اعمال سے رک جاتی ہیں۔ اس سے طبیعت پر بہت بوجھ  پڑتا ہے اور وہ بہت حرج محسوس کرتی ہے،  اس کا کیا حل ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں مذکورہ عورت کی ماہواری کا خون اگر  اس کی عادت کی مدت مکمل ہونے سے پہلے ہی بند ہوجائے تو اس کے لیے احتیاطاً روزہ رکھنا اور نماز پڑھنا لازم ہوگا، البتہ نماز کو  آخری وقت تک مؤخر کرنا واجب ہوگا،  نماز کے آخری وقت میں  بھی اگر بالکل خون بند  ہو تو اس پر غسل کرکے نماز پڑھنا لازم ہوگا،  لیکن فی الحال اس عورت کا اپنے شوہر سے ازدواجی تعلق قائم کرنا جائز نہیں ہوگا۔ پھر اگر عادت کےایام میں دوبارہ خون کا دھبہ آئے تو یہ پورا عرصہ حیض شمار ہوگا۔

اگر  7 دن کی عادت ہونے کی وجہ سے  پہلے وقتی طور پر خون بند ہونے پر نماز ادا نہیں کی اور بعد میں دوبارہ خون آگیا تو اب اس نماز کی قضا لازم نہیں ہوگی، کیوں کہ یہ پورا عرصہ ماہواری کا شمار ہوگا۔

اور یہ احتیاطاً  نماز، روزے کا حکم اس لیے ہے کہ اگر  دوبارہ (ابتدا  سے  خون آنے سے) دس دن کی مدت میں  خون نہ آئے  تو یہ زمانہ پاکی کا ہوگا، اور پاکی کی حالت میں نماز اور روزہ چھوڑنا جائز نہیں ہے۔

الدر المختار وحاشية ابن عابدين (رد المحتار) (1/ 294):

"(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوباً بل ندباً. (وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطاً؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه (أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها.

 (قوله: إذا انقطع حيضها لأكثره) مثله النفاس، وحل الوطء بعد الأكثر ليس بمتوقف على انقطاع الدم صرح به في العناية والنهاية وغيرهما، وإنما ذكره ليبني عليه ما بعده قال ط: ويؤخذ منه جواز الوطء حال نزول دم الاستحاضة اهـ وقدمنا عن البحر أنه يجوز الاستمتاع بما بين السرة والركبة بحائل بغير الوطء ولو تلطخ دماً. اهـ وهذا في الحائض، فيدل على جواز وطء المستحاضة وإن تلطخ دماً وسيأتي ما يؤيده فافهم (قوله: وجوباً) منصوب بعامل محذوف أي بلا غسل يجب وجوباً، ومثله قوله: بل ندباً (قوله: بل ندباً) ؛ لأن قراءة {حتى يطهرن} [البقرة: 222] بالتشديد تقتضي حرمة الوطء إلى غاية الاغتسال فحملناها على ما إذا كان أيامها أقل من عشرة دفعاً للتعارض بين القراءتين، فظاهره يورث شبهة، فلهذا لايستحب، نوح عن الكافي.

(قوله: لدون أقله) أي أقل الحيض وهو ثلاثة أيام (قوله: في آخر الوقت) أي وجوباً، بركوي، والمراد آخر الوقت المستحب دون المكروه كما هو ظاهر سياق كلام الدرر وصدر الشريعة. قال ط: وأهمل الشارح حكم الجماع، ويظهر عدم حله بدليل مسألة الانقطاع على الأقل وهو دون العادة.

قلت: قد يفرق بين تحقق الحيض وعدمه، وانظر ما نذكره قبيل قوله: والنفاس لأم التوأمين (قوله: وإن ولأقله) اللام بمعنى بعد ط (قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر (قوله: وتغتسل وتصلي) أي في آخر الوقت المستحب، وتأخيره إليه واجب هنا أما في صورة الانقطاع لتمام العادة فإنه مستحب، كما في النهاية والبدائع وغيرهما (قوله: احتياطاً) علة للأفعال الثلاثة".  فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144110200811

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں