بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کا خون پاکی کے پندرہ دن سے پہلے آنے کا حکم


سوال

2اکتوبر کوصبح 8 بجے کے قریب حیض شروع ہوا 11 اکتوبر کو ظہر کے وقت پاک ہوئی،پھر 6نومبر کوصبح 10 بجے شروع ہوا 15 نومبر کو ظہر کے وقت پاک ہوئی، پھر 30 نومبرصبح 9 بجے سے 15 دسمبر صبح11 بجے بند ہوا ،پھر 21 دسمبرکو صبح8 بجے دوبارہ شروع ہوا، اب نماز پڑھنی ہے ؟ راہ نمائی فرمادیں۔

جواب

واضح رہے کہ ایک حیض کے ختم ہونے اور دوسرے حیض شروع ہونے کے درمیان کم از کم پندرہ دن پاکی ہونا شرعاً ضروری ہے، پندرہ سے پہلے دوبارہ خون آنا شروع ہوجائے  وه ماهواری کا خون نہیں ہوگا، اور   اس صورت میں اگر  وہ عورت معتادہ (اس کی عادت مقرر) ہو تو اس کی ماہواری اور  پاکی  اس کی عادت کے مطابق شمار ہوں گی۔

لہذاصورتِ مسئولہ میں چوں کہ آپ کی ماہواری کے ایام کی عادت  نو دن ہے، لہذا  تیس نومبر سےآٹھ دسمبر تک آپ کا حیض شمار ہوگا،اور باقی   دنوں کا خون  استحاضہ کا خون تھا، اس میں نماز پڑھنا اور روزے رکھنا اور شوہر کا صحبت کرنا سب جائز تھا،اور اس کے بعدجو 21د سمبر کو دوبارہ خون نظر آیا،تو یہ بھی استحاضہ کا خون ہے،کیوں کہ طہر کے مدت کم از کم پندرہ دن ہے،اور آپ کو پندرہ دن سے پہلے خون نظر آیا، جس کے دوران آپ نماز و روزہ کی مکلف رہتی ہے، یعنی نماز و روزہ ترک کرنا جائز نہیں ہوتا،البتہ نماز کی ادائیگی کے لیے ہر نماز کا وقت داخل ہونے کے بعد نیا وضو کرنا ضروری ہوتا ہے،تا ہم تئیس دسمبر سے آپ کا خون حیض شمار ہوگا،اور آپ کی عادت کے موافق  ماہواری کے ایام ہوں گے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وأقل الطهر) بين الحيضتين أو النفاس والحيض (خمسة عشر يوما) ولياليها إجماعا (ولا حد لأكثره)......أما المعتادة فما زاد على عادتها ويجاوز العشرة في الحيض والأربعين في النفاس يكون استحاضة كما أشار إليه بقوله أو على العادة إلخ. أما إذا لم يتجاوز الأكثر فيهما، فهو انتقال للعادة فيهما، فيكون حيضا ونفاسا رحمتي."

(کتاب الطهارة، باب الحيض، ج: 1، ص: 285، ط: سعید)

وفیہ ایضاً:

"ثم اعلم أن الطهر المتخلل بين الدمين إذا كان خمسة عشر يوما فأكثر يكون فاصلا بين الدمين في الحيض اتفاقا فما بلغ من كل من الدمين نصابا جعل حيضا، وأنه إذا كان أقل من ثلاثة أيام لا يكون فاصلا وإن كان أكثر من الدمين اتفاقا."

( كتاب الطهارة، باب الحيض، ج:1، ص:289، ط: سعید)

فتاوىٰ ہندیہ میں ہے:

"(الأحكام التي يشترك فيها الحيض والنفاس ثمانية) (منها) أن يسقط عن الحائض والنفساء الصلاة فلا تقضي. هكذا في الكفاية إذا رأت المرأة الدم تترك الصلاة من أول ما رأت قال الفقيه وبه نأخذ. كذا في التتارخانية ناقلا عن النوازل وهو الصحيح. كذا في التبيين. إذا حاضت في الوقت أو نفست سقط فرضه بقي من الوقت ما يمكن أن تصلي فيه أو لا. هكذا في الذخيرة .... (ومنها) أن يحرم عليهما الصوم فتقضيانه هكذا في الكفاية إذا شرعت في صوم النفل ثم حاضت يلزمها القضاء احتياطا. هكذا في الظهيرية."

(كتاب الطهارة، الباب السادس، الفصل الرابع في احكام الحيض، ج:1، ص:38، ط: رشيدية)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144506100817

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں