بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے دنوں میں بیوی سے صحبت کرنا


سوال

اگر کوئی شخص حالتِ حیض میں بیوی سے ہم بستری کرتا ہو، بیوی کے روکنے کے باوجود بھی نہ رکے اور ایام حیض میں ہم بستری کرتا رہے بیوی یا شوہر کے لیے کیا حکم ہے اور کیا نقصانات ہیں؟

جواب

صورتِ  مسئولہ میں ایام کے دوران بیوی کے ساتھ ہم بستری    (جماع  )  کرنابنصِّ قرآنی حرام و گناہ کبیرہ  ہے، اور اسے  حلال سمجھنے والا بعض  فقہاء کے نزدیک کافر ہوجاتاہے،  اسی طرح ناف سے لے کر گھٹنوں تک کے حصے سے کسی موٹے کپڑے وغیرہ کے حائل  ہوئے بغیر  بیوی کے جسم سے لطف اندوز ہونا بھی ناجائز ہے؛ لہذا  اس حالت میں  ہرگز صحبت نہیں کرنی چاہیے،   اگر غلطی سے ماہواری کے دوران کبھی کسی سے صحبت ہوجائے، تو اس پر صدقِ دل سے توبہ کرنا لازم ہے، اور  اگر صحبت ماہواری کے آغاز  ( یعنی جب سرخ خون آتا ہو)  میں کی ہو تو ایک دینار شرعی  ( 4 گرا م 374  ملی گرام سونا یا اس کی قیمت)  صدقہ کرنا مستحب ہے، اور اگر ماہواری کے درمیانی  یا آخری ایام ( یعنی جب زردی مائل خون آتا ہو) میں صحبت کی ہو تو  نصف دینار شرعی صدقہ کرنا مستحب ہوگا۔

نیز طبی  اعتبار سے بھی ان ایام میں صحبت کرنا مرد و خاتون کے  لیے نہایت نقصان دہ ہے، اور   عمومًا خواجہ سرا کی پیدائش کا سبب  ہے۔

عورت کو چاہیے کہ وہ شوہر کو اس گناہ سے روکنے کی کوشش کرے، اور ان دنوں میں دخول نہ کرنے دے۔

تنوير الأبصار مع الدر المختار میں ہے:

(وَ) وَطْؤُهَا (يَكْفُرُ مُسْتَحِلُّهُ) كَمَا جَزَمَ بِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ، وَكَذَا مُسْتَحِلُّ وَطْءِ الدُّبُرِ عِنْدَ الْجُمْهُورِ مُجْتَبٍ (وَقِيلَ لَا) يَكْفُرُ فِي الْمَسْأَلَتَيْنِ، وَهُوَ الصَّحِيحُ خُلَاصَةٌ (وَعَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ) ؛ لِأَنَّهُ حَرَامٌ لِغَيْرِهِ وَلِمَا يَجِيءُ فِي الْمُرْتَدِّ أَنَّهُ لَا يُفْتَى بِتَكْفِيرِ مُسْلِمٍ كَانَ فِي كُفْرِهِ خِلَافٌ، وَلَوْ رِوَايَةٌ ضَعِيفَةٌ، ثُمَّ هُوَ كَبِيرَةٌ لَوْ عَامِدًا مُخْتَارًا عَالِمًا بِالْحُرْمَةِ لَا جَاهِلًا أَوْ مُكْرَهًا أَوْ نَاسِيًا فَتَلْزَمُهُ التَّوْبَةُ؛ وَيُنْدَبُ تَصَدُّقُهُ بِدِينَارٍ أَوْ نِصْفِهِ. وَمَصْرِفُهُ كَزَكَاةٍ وَهَلْ عَلَى الْمَرْأَةِ تَصَدُّقٌ؟ قَالَ فِي الضِّيَاءِ: الظَّاهِرُ لَا.

رد المحتار میں ہے:

(وَ) وَطْؤُهَا (يَكْفُرُ مُسْتَحِلُّهُ) كَمَا جَزَمَ بِهِ غَيْرُ وَاحِدٍ، وَكَذَا مُسْتَحِلُّ وَطْءِ الدُّبُرِ عِنْدَ الْجُمْهُورِ مُجْتَبٍ (وَقِيلَ لَا) يَكْفُرُ فِي الْمَسْأَلَتَيْنِ، وَهُوَ الصَّحِيحُ خُلَاصَةٌ (وَعَلَيْهِ الْمُعَوَّلُ) ؛ لِأَنَّهُ حَرَامٌ لِغَيْرِهِ وَلِمَا يَجِيءُ فِي الْمُرْتَدِّ أَنَّهُ لَا يُفْتَى بِتَكْفِيرِ مُسْلِمٍ كَانَ فِي كُفْرِهِ خِلَافٌ، وَلَوْ رِوَايَةٌ ضَعِيفَةٌ، ثُمَّ هُوَ كَبِيرَةٌ لَوْ عَامِدًا مُخْتَارًا عَالِمًا بِالْحُرْمَةِ لَا جَاهِلًا أَوْ مُكْرَهًا أَوْ نَاسِيًا فَتَلْزَمُهُ التَّوْبَةُ؛... (قَوْلُهُ: وَيُنْدَبُ إلَخْ) لِمَا رَوَاهُ أَحْمَدُ وَأَبُو دَاوُد وَالتِّرْمِذِيُّ وَالنَّسَائِيُّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ مَرْفُوعًا «فِي الَّذِي يَأْتِي امْرَأَتَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، قَالَ: يَتَصَدَّقُ بِدِينَارٍ أَوْ نِصْفِ دِينَارٍ» ثُمَّ قِيلَ إنْ كَانَ الْوَطْءُ فِي أَوَّلِ الْحَيْضِ فَبِدِينَارٍ أَوْ آخِرِهِ فَبِنِصْفِهِ، وَقِيلَ بِدِينَارٍ لَوْ الدَّمُ أَسْوَدَ وَبِنِصْفِهِ لَوْ أَصْفَرَ. قَالَ فِي الْبَحْرِ: وَيَدُلُّ لَهُ مَا رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَالْحَاكِمُ وَصَحَّحَهُ «إذَا وَاقَعَ الرَّجُلُ أَهْلَهُ وَهِيَ حَائِضٌ، إنْ كَانَ دَمًا أَحْمَرَ فَلْيَتَصَدَّقْ بِدِينَارٍ، وَإِنْ كَانَ أَصْفَرَ فَلْيَتَصَدَّقْ بِنِصْفِ دِينَارٍ» . اهـ 

( كتاب الطهارة، باب الحيض، ١ / ٢٩٧ - ٢٩٨، ط: دار الفكر)

 

آكام المرجان في أحكام الجان لمحمد بن عبد الله الشبلي الدمشقيّ الحنفيمیں ہے:

"قَالَ الطرطوسي فِي كتاب تَحْرِيم الْفَوَاحِش:

بَاب من أَي شَيْء يكون المخنث؟ حَدثنَا أَحْمد بن مُحَمَّد حَدثنَا أَحْمد بن مُحَمَّد القَاضِي حَدثنَا ابْن أخي ابْن وهب حَدثنِي عمي عَن يحيى عَن ابْن جريج عَن عَطاء عَن ابْن عَبَّاس قَالَ: المخنثون أَوْلَاد الْجِنّ، قيل لِابْنِ عَبَّاس: كَيفَ ذَلِك؟ قَالَ: إن الله عز وَجل وَ رَسُوله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم نهيا أَن يَأْتِي الرجل امْرَأَته وَهِي حَائِض، فَإِذا أَتَاهَا سبقه إِلَيْهَا الشَّيْطَان فَحملت فَجَاءَت بالمخنث، وَالله أعلم."

( الْبَاب الرَّابِع وَالثَّلَاثُونَ فِي أَن المخنثين أَوْلَاد الْجِنّ، ص: ١٢١، ط: مكتبة القرآن - مصر - القاهرة)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144112201509

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں