بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری عادت سے پہلے رک جائے تو ہم بستری کا حکم


سوال

میری  شادی کی  ابتدا  میں میری بیوی  کی  ماہواری جو سات روز کی  ہوتی ہے ،پانچویں دن اس کا خون رک گیا  اور میں نے اس کے  ساتھ  ہم بستری   کی، بعد میں  مجھے مسئلے  کا علم ہوا کہ  ماہواری کی مدت مکمل ہونے کے بعد  ہی ہم بستری  کی اجازت ہے،  اس بات کو پانچ سال ہو چکے ہیں،  اب میرے لیے کیا حکم  ہے؟ صرف ایک بار  ہوئی  ہے !

جواب

واضح   رہے  کہ جب کسی عورت  کی ماہواری کا خون اس کی عادت سے پہلے  رک جائے  تو  شوہر کے لیے ہم بستری ، عادت کے دن تک جائز نہیں ہوتی،اس سے   پہلے ہم بستری کرنا ایسا ہی ہے جیسا حیض کے ایام میں ہم بستری کرنا۔ جب عادت پوری ہوجائے تو اس کے بعدشوہر  ہم بستری کرسکتا ہے؛ لہذا صورتِ  مسئولہ  میں  سائل  نے پانچ سال  پہلے  عادت سے پہلےخون  رکنے  کی صورت میں جو بیوی سے ہم بستری کرلی تھی   سائل اس پر گناہ گار ہوا،  سائل کو چاہیے کہ اس پر توبہ کرے اور اللہ سے امید ہے کہ لا علمی میں کیے ہوئے گناہ کو اللہ معاف کردیں گے، حسبِ توفیق صدقہ کچھ صدقہ دے دیں، اس کے علاوہ سائل پر کوئی کفارہ نہیں ہے۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

«(ويحل وطؤها إذا انقطع حيضها لأكثره) بلا غسل وجوبا بل ندبا.(وإن) انقطع لدون أقله تتوضأ وتصلي في آخر الوقت، وإن (لأقله) فإن لدون عادتها لم يحل، وتغتسل وتصلي وتصوم احتياطًا؛ وإن لعادتها، فإن كتابية حل في الحال وإلا (لا) يحل (حتى تغتسل) أو تتيمم بشرطه(أو يمضي عليها زمن يسع الغسل) ولبس الثياب (والتحريمة) يعني من آخر وقت الصلاة لتعليلهم بوجوبها في ذمتها، حتى لو طهرت في وقت العيد لا بد أن يمضي وقت الظهر، كما في السراج.

(قوله: لم يحل) أي الوطء وإن اغتسلت؛ لأن العود في العادة غالب، بحر."

(کتاب الطہارت باب الحیض ج نمبر ۱ ص نمبر ۲۹۴،ایچ ایم سعید)

ذخر المتأهلين والنساء للإمام البركوي میں ہے:

«والمعتادة إذا انقطع في عادتها أو بعدها. وأما إذا انقطع قبلها فهي في حق الصلاة والصوم كذلك. وأما الوطء فلا يجوز حتى تمضي عادتها. حتى لو كان حيضها عشرة فحاضت ثلاثة وطهرت ستة لايحل وطؤها، وكذا النفاس.»

(فصل ثالث  ص نمبر ۷۸،دار الفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144208200685

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں