بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کے ایام میں بیوی سے مباشرت کرنے سے متعلق حدیث کی تشریح


سوال

مندرجہ ذیل حدیث کا کیا مطلب ہے؟

حدثنا بندار قال: حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن منصور، عن إبراهيم، عن الأسود، عن عائشة، قالت: «كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا حضت يأمرني ‌أن ‌أتزر، ‌ثم يباشرني»."

جواب

ترجمہ: ’’حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ جب مجھے حیض آتا تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے لنگی باندھنے کا حکم دیتے، پھر آپ مجھے اپنے ساتھ لٹاتے تھے‘‘۔

(تحفۃ الالمعی، مصنفہ :مفتی سعید احمد پالنپوری صاحب نور اللہ مرقدہ، کتاب الطہارہ، حائضہ کو ساتھ لٹانے کا مسئلہ، ج:1، ص:415، ط:زمزم پبلشرز)

مذکورہ حدیث میں بیوی کی  ماہواری کے دنوں میں ساتھ لٹانے اور اس کے ساتھ مباشرت کا ذکر ہے، اور یہاں مباشرت سے مراد جماع نہیں ہے، بلکہ بدن کا بدن سے  ملنا مراد ہے، اس بارے میں تفصیل یہ ہے کہ بیوی کے ساتھ ماہواری کے ایام میں صحبت کرنا با اجماعِ امت حرام ہے، اور ناف سے اوپر ، گھٹنوں سے نیچلے حصے سے استمتاع (بوس و کنار وغیرہ) کرنا با اتفاقِ امت جائز وحلال ہے،  گھٹنوں اور ناف کے مابین کے حصے سے بغیر کسی حائل (کپڑا وغیرہ) کے استمتاع کرنا ناجائز ہے، اگر درمیان میں کوئی حائل (کپڑا وغیرہ) ہو تو جائز ہے، بشرطیکہ صحبت میں مبتلا ہونے کا اندیشہ نہ ہو۔

نیز واضح رہے کہ حضور صلی اللہ علیہ  وسلم کا مذکورہ فعل بیانِ جواز کے لیے تھا، یعنی امت کو یہ شرعی حکم بتلانے کے لیے کہ اگر ناف اور گھٹنوں کے مابین کا حصہ کسی کپڑے وغیرہ سے چھپایا جائے تو بیوی کو ساتھ لٹانا اور اس سے استمتاع کرنا جائز ہے، اور یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرض منصبی ہونے کی بنا پر امت کو بتانا ضروری تھا، اس لیے یہ کوئی مسنون طریقہ نہیں ہے، اور نہ ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا، بلکہ اس کے برعکس معمول یہ تھا کہ جب ازواجِ مطہرات کو ماہواری شروع ہوتی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے علیحدہ لیٹتی تھیں، لہذا باوجود یہ کہ یہ جائز ہے، اس کو مسنون عمل سمجھنا درست نہیں ہے، بلکہ ماہواری کے دنوں میں (خصوصاً نوجوانوں کو) بیوی سے علیحدہ سونا چاہیے؛ تاکہ ناجائز فعل میں مبتلا نہ ہوں۔

معارف السنن میں ہے:

"أجمع المسلمون على تحريم وطء الحائض للآية الكريمة والأحاديث الصحيحة المستفيضة، حتى عد مستحله كافرا كما أجمعوا على جواز المباشرة وحل الاستمتاع بما فوق السرة وتحت لركبة، واختلفوا في حكم الاستمتاع بما بين السرة والركبة فممن قال بحرمته من الأئمة : أبو حنيفة و مالك والشافعي في أصح قوليه وأكثر اهل العلم."

(كتاب الطهارة، باب في مباشرة الحائض، ج:1، ص:510، ط:مجلس الدعوة والتحقيق الإسلامي)

تحفۃ الالمعی میں ہے:

’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ عمل گاہ بگاہ کا تھا، اور بیان جواز کے لیے تھا، ورنہ ازواج کا عام معمول یہ تھا کہ وہ ماہواری کے دنوں میں علیحدہ لیٹتی تھیں، ابو داؤد میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:’’كنت إذا حضت نزلت عن المثال (السرير) على الحصير، فلم نقرب رسول الله صلي الله عليه وسلم، ولم ندن منه حتى نطهر‘‘: ‘‘جب مجھے ماہواری آتی تھی تو میں چارپائی سے چٹائی پر اتر جاتی تھی، پس جب تک ہم پاک نہیں ہوتی تھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے نزدیک ہوتی تھیں نہ قریب‘‘، اور باب میں جو روایت ہے اس کی صورت یہ ہوتی تھی کہ رات میں میاں بیوی بغیر کپڑوں کے لیٹے ہیں اور بیوی کو ایام شروع ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم حکم دیتے تھے کہ بیوی حیض کے زمانہ میں جو کپڑے باندھتی ہے وہ کپڑے اور لنگی باندھ لے (یا پائجامہ پہن لے)، اور آپ کے ساتھ لیٹ جائے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فعل بیان جواز کے لیے تھا، اور انبیاء جو کام اس مقصد کے لیے کرتے ہیں وہ ان کے حق میں مکروہ نہیں ہوتے بلکہ ان ک لیے ایسا کرنا ضروری ہوتا ہے، پس یہ سنت نہیں، پس لوگوں کو خاص طور پر  نوجوانوں کو ایام حیض میں بیویوں سے علیحدہ سونا چاہیے، تا کہ وہ گناہ میں مبتلا نہ ہوں‘‘۔

(تحفۃ الالمعی، مصنفہ: مفتی سعیداحمد پالنپوری صاحب نور اللہ مرقدہ، کتاب الطہارہ، حائضہ کو ساتھ لٹانے کا مسئلہ، ج:1، ص:415، ط:زمزم پبلشرز)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144406100251

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں