بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہواری کی عادت میں تبدیلی کی صورت میں نماز کا حکم


سوال

ایک عورت کی ماہواری کی مدت پہلے 5 دن تھی،پھر کچھ عرصے بعد  مدت 7 دن ہوئی،پھر کچھ عرصے بعد 10 دن ہو گئی پھر 2 مہینے تک 10 دن رہی ،پھر تیسرے مہینے 2 دن خون آیا، پھر پورے مہینے نہیں آیا اور اس مہینے 4 سے 5 دن آ گیا ہے،تو اس عورت کے لیے نماز اور روزوں کا کیا حکم ہے؟

جواب

واضح رہے کہ اگر کسی عورت کی ماہواری کی سابقہ عادت متعین ہو  یعنی اسے ہرماہ مثلاً: سات دن حیض  آتا ہو، پھر کسی مہینے سابقہ ایام سے زیادہ  ایام حیض کا سلسلہ جاری رہے،  یہاں تک کہ دس دنوں سے بھی زیادہ  کی مدت ہوجائے تو ایامِ عادت (مثلاً: سات ایام)کا خون توحیض سمجھا جائے گا، اور اس کے بعد کے دنوں کا خون  استحاضہ شمار ہو گا، استحاضہ کا خون در اصل بیماری کا خون ہے، عورت اسی حالت میں نماز بھی پڑھے گی، اور روزہ بھی رکھے گی اوراگر نماز ، روزے رہ گئے تو ان کی قضاکرنی ہوگی۔غسل کے اعادے کی ضرورت نہ ہوگی،اور اگرخون سابقہ عادت سے بڑھ جائے، لیکن دس دنوں کے اندراندر  بند ہوجائے یا دھبے نظر آنا دس دنوں کے اندر بند ہوجائیں تو  اس صورت میں اسے  عادت کی تبدیلی قرار دیاجائے گا۔اور سابقہ عادت سے دس دنوں کے اندر اندر جتنے دن خون آیا یا دھبے لگے یہ تمام ایام حیض شمار ہوں گے ، اور دس دن کے اندر جب خون یا دھبے آنا بند ہوجائیں تو غسل بھی دوبارہ کرنا ہوگا۔

لہذا صورت مسئولہ میں  مذکورہ عورت  کی عادت پانچ  دن تھی  ،  پھر کچھ عرصے  کے بعد   مدت  سات دن کی ہوئی ،پھر دس دن کی ہوگئی تو دونوں حیض میں شمار ہیں، البتہ اب  جبکہ تیسرے ماہ میں صرف دو دن  خون آیا،  پھر اگر بالکل نہیں آیا  تویہ دودن حیض میں شمار نہیں ہوں گے؛  کیوں کہ دو دن حیض نہیں ہوتے ،بلکہ کم از کم تین دن ہونے چاہییں  اگر چہ معمولی مقدار میں  آئے۔ البتہ بعد میں 4، 5  دن آنے والا   خون حیض شمار ہوگا۔

فتاوی عالمگیری میں ہے:

" انتقال العادة يكون بمرة عند أبي يوسف وعليه الفتوى. هكذا في الكافي.. فإن رأت بين طهرين تامين دما لا على عادتها بالزيادة أو النقصان أو بالتقدم والتأخر أو بهما معا انتقلت العادة إلى أيام دمها حقيقيا كان الدم أو حكميا هذا إذا لم يجاوز العشرة فإن جاوزها فمعروفتها حيض وما رأت على غيرها استحاضة فلا تنتقل العادة هكذا في محيط السرخسي".

(كتاب الحيض،39/1، ط: دار الفكر)

مجمع الأنهر في شرح ملتقى الأبحرمیں ہے:

" (‌والعادة ‌تثبت وتنتقل بمرة في الحيض والنفاس عند أبي يوسف وبه يفتى وعندهما لا بد من المعاودة) وثمرة الخلاف تظهر فيما إذا رأت خلاف عادتها مرة ثم استمر بها الدم في الشهر الثاني فإنها ترد إلى أيام عادتها القديمة عندهما وعند أبي يوسف ترد إلى آخر ما رأت، ولو أنها رأت ذلك مرتين ثم استمر بها الدم في الشهر الثالث فإنها ترد إلى ما رأت مرتين بالإجماع".

‌‌[حكم النفاس،55/1،ط : دار إحياء التراث العربي]

ملتقى الأبحر میں ہے:

"‌ والعادة ‌تثبت وتنتقل بمرة في الحيض والنفاس عند أبي يوسف وبه يفتي وعندها لا بد من المعاودة ونفاس التوأمين من الأول خلافا لمحمد".

‌‌(باب الحيض،82،ط : دار الكتب العلمية)

ذخر المتأهلين والنساء للإمام البركوي میں ہے:

" (‌والعادة ‌تثبت بمرة واحدة في الحيض والنفاس) «هذا قول أبي يوسف وأبي حنيفة آخرا. قال في "المحيط" (1): "وبه يفتى". وفي موضع آخر (2): "وعليه الفتوى". هذا في الحيض أما في النفاس فمتفق عليه»، مصنف ".

‌‌[الأصول والقواعد الكلية في العادة،146،ط : دار الفكر]

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508101743

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں