ایک عورت نے رمضان میں اس خیال سے پانی پیا کہ مخصوص ایام چل رہے ہیں، پھر معلوم ہوا کہ وہ پاک تھی تو اب اس پر قضاء مع الکفارہ ہے یا صرف قضاءہے؟
صورت مسئولہ میں اگرمذکورہ عورت نے ماہواری کے ایام کے خیال سے روزے کی نیت ہی نہیں کی تھی ،توایسی صورت میں اس عورت پر صرف قضاء لازم ہے ،اور اگر مخصوص ایام چل رہے تھے یعنی حیض جاری تھا ،اس لیے اس خیال سے پانی پیا،اور بعد میں معلوم ہوا کہ خون آنا بند ہوگیا تھا ،اور وہ پاک تھی ،تو اس صورت میں بھی قضا لازم ہوگی ،کفارہ نہیں ۔
فتاوی ھندیہ میں ہے:
"(ومنها الحيض والنفاس) ، وإذا حاضت المرأة ونفست أفطرت كذا في الهداية ...الخ."
(كتاب الصوم ،ج:1،ص:207،ط:دار الفكر بيروت)
البحر الرائق میں ہے:
"وفي الخلاصة لو كان له نوبة حمى فأكل قبل أن تظهر يعني في يوم النوبة لا بأس فإن لم يحم فيه كان عليه الكفارة كما لو أفطرت على ظن أنه يوم حيضها فلم تحض كان عليها الكفارة لوجود الإفطار في يوم ليس فيه شبهة الإباحة وهذا إذا أفطر بعدما نوى الصوم وشرع فيه أما لو لم ينو كان عليه القضاء دون الكفارة كذا في فتاوى قاضي خان."
(كتاب الصوم ،ج:2،ص:303،ط:دار الكتاب الاسلامي)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144409100783
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن