بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

27 شوال 1445ھ 06 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محرم کے بغیر سفر کرنے اور ہاسٹل میں بغیر محرم کے اقامت کرنے کا حکم/ حدیثِ عدی بن حاتم سے اس مسئلہ پر اشکال کا جواب


سوال

1۔کیا عورت کا بغیر محرم سفر کرنا جائز ہے؟اگر کسی مجبوری میں عورت بغیر محرم سفر کرے تعلیم کے لیے  یا عورت کی نوکری ایسی ہو کہ اس کی پوسٹنگ مختلف شہروں  میں ہوتی رہتی ہو اور اسکو محرم میسر نہ ہو تو اس صورت میں کیا حکم ہے؟

2۔  اگر لڑکی بیرون ملک جیسے ترکی ملیشیا یا انڈونیشیا تعلیم حاصل کرنے کیلئے جائے کہ اس کا محرم اس کو وہاں چھوڑ آئے اور وہ وہاں گرلز ہوسٹل میں تعلیم حاصل کرے تو کیا یہ جائز ہے؟

3۔اور اگر جائز نہیں تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث جو حضرت عبدالرحمن ابن عوف سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر آپ طویل عرصے تک زندہ رہیں تو آپ دیکھیں گے کہ وہ عورت حیرہ (عراق کے ایک شہر) سے خانہ کعبہ کا طواف کرنے کے لیے سفر کرتی ہے اور اللہ کے سوا کسی سے نہیں ڈرتی۔تو اس حدیث میں ایک تو پیشن گوئی ثابت ہو گئی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں تو عورت کے محرم کے بغیر سفر کو ناجائز قرار نہیں دیا ۔

جواب

1۔ واضح رہے کہ عورت کے لیےمسافت ِ شرعی (سوا ستتر کلومیٹر) یا اس سے زیادہ  مسافت کا   سفر  محرم کے بغیر جائز نہیں، کیونکہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا ہے  کہ کوئی عورت تین روز (یعنی شرعی مسافت) سے زیادہ سفر نہ کرےالا یہ کہ اس کے ساتھ اس کا شوہر یا اس کا محرم ہو ۔  دوسری حدیث میں ہے کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے۔ (آپ ﷺ کا یہ مبارک ارشاد سن کر)  حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور  اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔

جمہور فقہاء نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے فرض حج کے لیے بھی شرعی محرم کے بغیر سفر کرنے کو نا جائز کہا ہے، جب کہ اس کے مقابلے میں تعلیم اورکسبِ معاش تو بہت کم درجہ کی چیزیں ہیں جن کی مسلمان عورتوں کو ضرورت بھی نہیں ہے۔ اس  لیے کہ خود شریعتِ اسلامیہ نے اس کی کفالت کی ذمہ داری شادی سے پہلے اس کے باپ پر اور شادی کے بعد شوہر پر ڈالی ہے اور عورت کو اس کی اجازت نہیں دی کہ وہ شدید ضرورت کے بغیر گھر سے نکلے، لہذا کسبِ معاش اور حصولِ تعلیم کے لئے اس طرح بغیرمحرم کے سفر کرنا جائز نہیں،ہاں  اگر کوئی عورت ایسی ہے جس کا نہ تو شوہر ہے، اور نہ باپ ہے اور نہ ہی کوئی دوسرا ایسا رشتہ دار ہے جو اس کی معاشی کفالت کر سکے اور نہ خود اس عورت کے پاس اتنا مال ہے جس کے ذریعے وہ اپنی ضروریات پوری کر سکے، اس صورت میں اُس عورت کے لئے بقدر ضرورت کسبِ معاش کے لئے شرعی پردہ کی پابندی کے ساتھ گھر سے نکلنا جائز ہے اور جب یہ مقصد اپنے وطن اور اپنے شہر میں رہ کر  باآسانی پورا ہو سکتا ہو تو اس کے لئے کسی غیر مسلم ملک کی طرف سفر کرنے کی اجازت نہیں۔

2۔ اگر کوئی عورت گھر سے محرم کے ساتھ نکل کر شرعی مسافت طے کر کےکسی جگہ اقامت اختیار کر لے، مثلاً کسی ہاسٹل یا مدرسہ وغیرہ میں  جہاں  بےپردگی مرد وزن اور غیر اخلاقی ماحول  نہ ہو ، اور عورت کی عفت  وعصمت پوری طرح  محفوظ ہو،پھر عورت کا محرم وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل ہوجائے  تو عورت کے لیے ایسے ہاسٹل یا مدرسہ میں  اقامت اختیار کرنے کی گنجائش ہے، بشرطیکہ وہ عورت وہاں رہ کر شرعی پردہ کی پابندی کرے ۔

3۔ یہ حدیث شریف مسند احمد میں حضرت  عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، جس کے الفاظ یہ ہیں:

"مسند أحمد" میں ہے:

"حدثنا يزيد، أخبرنا هشام بن حسان، عن محمد بن سيرين، عن أبي عبيدة، عن رجل قال: قلت لعدي بن حاتم: حديث بلغني عنك أحب أن أسمعه منك. قال: نعم، لما بلغني خروج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فكرهت خروجه كراهة شديدة، خرجت حتى وقعت ناحية الروم - وقال، يعني يزيد: ببغداد - حتى قدمت على قيصر. قال: فكرهت مكاني ذلك أشد من كراهيتي لخروجه. قال: فقلت: والله، لولا أتيت  هذا الرجل، فإن كان كاذبا لم يضرني، وإن كان صادقا علمت. قال: فقدمت فأتيته، فلما قدمت قال الناس: عدي بن حاتم، عدي بن حاتم. قال: فدخلت على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لي: " يا عدي بن حاتم، أسلم تسلم " ثلاثا. قال: قلت: إني على دين، قال: " أنا أعلم بدينك منك " فقلت: أنت أعلم بديني مني؟! قال: " نعم، ألست من الركوسية، وأنت تأكل مرباع قومك؟ " قلت: بلى. قال: " فإن هذا لا يحل لك في دينك ". قال: فلم يعد أن قالها، فتواضعت لها. فقال: " أما إني أعلم ما الذي يمنعك من الإسلام. تقول إنما اتبعه ضعفة الناس، ومن لا قوة له، وقد رمتهم العرب، أتعرف الحيرة؟ " قلت: لم أرها، وقد سمعت بها. قال: " فوالذي نفسي بيده، ليتمن الله هذا الأمر حتى تخرج الظعينة من الحيرة حتى تطوف بالبيت في غير جوار أحد، وليفتحن كنوز كسرى بن هرمز " قال: قلت: كسرى بن هرمز؟! قال: " نعم، كسرى بن هرمز، وليبذلن المال (1) حتى لا يقبله أحد ".

قال عدي بن حاتم: فهذه الظعينة تخرج من الحيرة، فتطوف بالبيت في غير جوار، ولقد كنت فيمن فتح كنوز كسرى بن هرمز. والذي نفسي بيده لتكونن الثالثة لأن رسول الله صلى الله عليه وسلم قد قالها ".

(حديث عدي بن حاتم الطائي،ج:30، ص: 196،ط:الرسالة)

اس حدیث شریف میں اسلام کے غلبے اور امن کے قیام کی پیشن گوئی کی گئی ہے،اور بطور ِ مثال فرمایا  کہ وہ ایسا زمانہ ہو گا کہ اگر کوئی عورت تنہا مقام حیرہ سے نکل کر بیت اللہ کا طواف کرے تو اسے کوئی خوف نہ ہوگا،اس میں  کسی حکم ِشرعی کا بیان نہیں ہے کہ اسے استدلال کے طور پر پیش کیا جائے،لہذا اس حدیث کو اُن صریح نصوص کے مقابلے میں پیش نہیں کیا جاسکتا جن میں صراحۃ ً عورت کو محرم کے بغیر سفر کرنے کی ممانعت وارد ہوئی ہے۔

جیساکہ "الفتح الرباني لترتيب مسند الإمام أحمد بن حنبل الشيباني" میں ہے:

"والمراد من التركيب أن الله عز وجل سيظهر الاسلام وأهله ويمكن لهم فى الأرض ويبدلهم من بعد خوفهم أمنا حتى تسير المرأة المسافة البعيدة من غير حراسة وهى آمنة أى وليفتحن الله على المسلمين أرض الفرس حتى يستولوا على خزانتها وخيراتها ويكونوا سادتها وقد كان ذلك فى عهد عمر بن الخطاب رضى الله عنه".

(كتاب المناقب،ج:22،ص:321،ط:دار احياء التراث العربي)

صحیح مسلم میں ہے:

"عن عبد الله بن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: «لايحل لامرأة تؤمن بالله واليوم الآخر، تسافر مسيرة ثلاث ليال، إلا ومعها ذو محرم»."

(كتاب الحج،باب سفر المرأة مع محرم إلى حج وغيره،975/2، الرقم:1338،ط:دار إحياء التراث العربي)

ترجمہ:’’حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایات ہے کہ رسولِ کریم ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالی اور آخرت کے دن پر ایمان رکھنے والی عورت کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ تین راتوں کی مسافت کے بقدر سفر  کرے، مگر یہ کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو۔‘‘

صحیح بخاری میں ہے:

"عن ابن عباس رضي الله عنهما، أنه: سمع النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: «لايخلونّ رجل بامرأة، ولا تسافرنّ امرأة إلا ومعها محرم»، فقام رجل فقال: يا رسول الله، اكتتبتُ في غزوة كذا وكذا، وخرجت امرأتي حاجةً، قال: «اذهب فحجّ مع امرأتك."

(كتاب الجهاد والسير،باب: من اكتتب في جيش فخرجت امرأته حاجة،1094/3،ط:دار ابن كثير)

ترجمہ:  ’’عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ  انہوں نے آپ ﷺ سے سنا کہ آپ ﷺ فرمارہے تھے: کوئی عورت کسی مرد سے تنہائی میں نہ ملے اور نہ کوئی عورت  بغیر محرم کے سفر کرے، تو حاضرین میں سے ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس نے کہا : اے اللہ کے رسول!  میں نے فلاں جہاد کے سفر میں جانے کے لیے اپنا نام لکھوایا ہے، جب کہ میری بیوی حج کرنے جارہی ہے، تو آپ ﷺ نے فرمایا : جاؤ اپنی بیوی کے ساتھ حج کرو۔‘‘

"بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع" میں ہے:

"وإذا خرج مع امرأته مسافرا فطلقها في بعض الطريق أو مات عنها فإن كان بينها وبين مصرها الذي خرجت منه أقل من ثلاثة أيام وبينها وبين مقصدها ثلاثة أيام فصاعدا رجعت إلى مصرها؛ لأنها لو مضت لاحتاجت إلى إنشاء سفر وهي معتدة، ولو رجعت ما احتاجت إلى ذلك فكان الرجوع أولى كما إذا طلقت في المصر خارج بيتها أنها تعود إلى بيتها، كذا هذا.

‌وإن ‌كان ‌بينها وبين مصرها ثلاثة أيام فصاعدا وبينها وبين مقصدها أقل من ثلاثة أيام فإنها تمضي؛ لأنه ليس في المضي إنشاء سفر، وفي الرجوع إنشاء سفر".

(كتاب الطلاق، فصل في العدة، ج:3،ص:207،ط:العلمىة)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

" ولا يزال على حكم السفر حتى ينوي الإقامة في بلدة أو قرية خمسة عشر يوما أو أكثر، كذا في الهداية"

(كتاب الصلوة،الباب الخامس العشر في صلاة المسافر،ج:1،ص:199)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144506100291

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں