بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

12 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر مثل سے کم دینا


سوال

مہر مثل اتنا  زیادہ ہو کہ شوہر دینے پر قادر نہ ہو تو کتنا مہر دیا جاۓ؟  کیا مہر مثل سے کم دے سکتے ہیں؟ مدلل جواب عنایت فرمائیں۔

جواب

نکاح میں جو بھی مہر واجب  ہوجائے(چاہے مہر مسمی ہویا مہر مثل ہو)  اس سے کم دینا جائز نہیں، البتہ  اگر  عورت اپنی خوشی سے  کچھ  حصہ یا پورا مہر  معاف کردے تو اس کو اختیار ہے، لیکن اس میں جبر  وزبردستی جائز نہیں۔زبردستی یا علاقائی رسم ورواج کے تحت اگر مہر معاف کروایا گیا  توایسی معافی شرعا معتبر نہیں ہوگی۔

الدر المختار میں ہے:

 "(وصح حطّها) لكله أو بعضه ( عنه ) قبل أو لا".       (الدر المختار مع رد المحتار: كتاب النكاح، باب المهر (3/ 113)، ط. سعيد)

فتاوی عالمگیری میں ہے:

"وإن حطت عن مهرها صح الحط، كذا في الهداية. ولا بد في صحة حطها من الرضا حتى لو كانت مكرهة لم يصح".

(كتاب النكاح،الباب السابع في المهر ، الفصل السابع في الزيادة في المهر والحط عنه فيما يزيد وينقص (1/ 313)، ط. رشيديه)

مفتی شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’تیسرا ظلم مہر کے بارے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ بہت سے شوہر یہ سمجھ کر بیوی ان سے مجبور ہے مخالفت کر نہیں سکتی، دباؤ ڈال کر ان سے مہر معاف کرا لیتے تھے، جس سے درحقیقت معافی نہ ہوتی تھی مگر وہ یہ سمجھ کر بےفکر ہوجاتے تھے کہ مہر معاف ہوگیا۔
اس ظلم کے انسداد کے لئے آیت مذکورہ میں ارشاد فرمایا"فان طبن لکم عن شيء منه نفسا فکلوہ ھنیئًا مریئًا" یعنی اگر وہ عورتیں خوش دلی کے ساتھ اپنے مہر کا کوئی حصہ تمہیں دیدیں تو تم اس کو کھا سکتے ہو، تمہارے لئے مبارک ہوگا۔“
مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کردیں یا لینے کے بعد تمہیں واپس کردیں تو وہ تمہارے لئے جائز ہے اور درست ہے۔
یہ مظالم مذکورہ زمانہ جاہلیت میں بہت زیادہ تھے جن کا اندازہ قرآن حکیم نے اس آیت میں فرمایا، افسوس ہے کہ جاہلیت کے زمانہ کی یہ باتیں مسلمانوں میں اب بھی موجود ہیں، مختلف قبیلوں اور علاقوں میں ان مظالم میں سے کوئی نہ کوئی ظلم ضرور پایا جاتا ہے، ان سب مظالم سے بچنا لازم ہے۔ آیت شریفہ میں جو یہ قید لگائی طیب نفس کی کہ خوشی سے تمہاری بیویاں اگر مہر کا کچھ حصہ تم کو دیدیں یا تم سے وصول ہی نہ کریں تو تم اس کو کھا سکتے ہو اس میں ایک بہت بڑا راز ہے، بات یہ ہے کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ کسی کا ذرا سامال بھی کسی دوسرے کے لئے حلال نہیں ہے جب تک کہ طیب نفس سے اجازت نہ ہو، بطور قاعدہ کلیہ حضور اقدس صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:  " خبردار ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو کہ کسی شخص کا مال (دوسرے شخص کے لئے) حلال نہیں ہے جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو"۔
یہ ایک عظیم اصول ہے اور اس کے ماتحت بہت سے جزئیات آجاتے ہیں۔ دور حاضر میں چونکہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مہر ملنے والا نہیں ہے، اگر سوال کروں یا معاف نہ کروں تو بد دلی یا بدمزگی پیدا ہوگی، اس لئے بادل ناخواستہ معاف کردیتی ہیں، اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں، سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرماتے تھے کہ :صحیح معنی میں طیب نفس سے معاف کرنے کا پتہ اس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالہ کردی جائے اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے دیدے۔‘‘

(معارف القرآن: تفسير سورة النساء (2/ 298)، ط. مكتبة معارف القرآن كراچی، طبع جديد: 1429ھ= 208م)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144308100771

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں