بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

18 شوال 1445ھ 27 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر میں طے شدہ سونے کے بدلے اس کی قیمت ادا کرنا


سوال

ایک عورت کی شادی ہوجائے اور اس وقت اس کا مہر دو تولہ ہو ،ایک تولہ شوہر نے شادی کے وقت ادا کردیا اور ایک تولہ ادا نہیں کیا،اب وہ ایک تولے کی قیمت دے رہا ہے اور یہ قیمت آج کے دور کی قیمت تک نہیں پہنچ رہا ہے تو اب کیا کیا جائے اس لئے کہ پہلے تولہ سستا تھا اب بہت مہنگا ہے۔

جواب

صورتِ  مسئولہ  میں مہر میں طے شدہ سونے کے بجائے اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے، تاہم سونے کی قیمت موجود ہ قیمت کے اعتبار سے دینا ہوگا، جس وقت مہر مقرر کیا تھا اس وقت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا،ہاں اگر بیوی کم قیمت لینا چاہے تو یہ اس کی مرضی ہے۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن، ووجوب استبراء الجارية على المشتري، وملك الاستمتاع بها، وثبوت الشفعة لو عقارا، وعتق المبيع لو محرما من البائع بحر، وصوابه من المشتري."

(كتاب البيوع  ج: 4 ص: 506  ط: سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجاز) (التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين)كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر

(قوله: ولو بعوض) كأن اشترى البائع من المشتري شيئا بالثمن الذي له عليه...........(قوله: وكذا الحكم في كل دين) أي يجوز التصرف فيه قبل قبضه، لكن بشرط أن يكون تمليكا ممن عليه بعوض أو بدونه كما علمت........(قوله: كمهر إلخ) وكذا القرض."

(کتاب البیوع ، باب المرابحة و التولیة ج: 5 ص: 152 / 153 ط: سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے :

"حتى لو تزوجها على ثوب أو مكيل أو موزون وقيمته يوم العقد عشرة فصارت يوم القبض أقل ليس لها الرد وفي العكس لها ما نقص."

(کتاب النکاح ، الباب السابع في المهر ، الفصل الأول في بيان مقدار المهر ج: 1 ص: 302 ط: مکتبہ ماجدیہ )

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144410100063

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں