بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر میں طے شدہ سونے کے بجائے اس کی قیمت دینے کا حکم


سوال

کیا فرماتے ہیں علماءکرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے بیوی کے  لیے دو تولہ سونا حق مہر مقرر کردیا، اب بیس  سال بعد اس کو ادا کرنا چاہ رہا ہے، عورت کہہ رہی ہےکہ سونے کی بجائے پیسے دیجیے، کیا سونے کے عوض پیسے دیے جاسکتے ہیں؟اگر ہاں تو پھر پیسے کس اعتبار سے دیے جائیں گے، موجودہ قیمت کے اعتبار سے یا بیس سال پہلے جو سونا کی قیمت تھی؟

جواب

بصورتِ  مسئولہ مہر میں طے شدہ سونے کے بجائے اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے، تاہم سونے کی قیمت موجود ہ قیمت کے اعتبار سے دینا ہوگا، جس وقت مہر مقرر کیا تھا اس وقت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن، ووجوب استبراء الجارية على المشتري، وملك الاستمتاع بها، وثبوت الشفعة لو عقارا، وعتق المبيع لو محرما من البائع بحر، وصوابه من المشتري."

(كتاب البيوع، ج:4، ص:506، ط:ايج ايم سعيد)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144208200795

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں