بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

بیوی سے مہر میں دی گئی رقم بطور قرض واپس لینا


سوال

حقِ مہر کی رقم ادا کرنے کے بعد شوہر بیوی سے وہی رقم ادھا لینا چاہے اور بیوی دینے پر راضی ہو تو کیا وہ جائز ہے؟

جواب

حقِ مہر کی ادائیگی کے بعد مہر کی رقم عورت کی ملکیت میں شامل ہوجاتی ہے، اب شوہر کا اس رقم پر کوئی حق باقی نہیں رہتا۔ اگر شوہر بیوی سے وہ رقم بطور قرض لینا چاہے اور  بیوی دلی رضامندی سے وہ رقم قرض کے طور پر شوہر کو دینا چاہے تو شوہر کے لیے بطور قرض اس رقم کا لینا جائز ہے، البتہ یہ رقم شوہر پر قرض ہی رہے گی جب تک کہ شوہر ادا نہ کردے، بعد میں اس رقم کا معاف کرالینا درست نہ ہوگا۔

چنانچہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمہ اللہ معارف القرآن میں سورہ نساء کی آیت نمبر 3 کے ذیل میں لکھتے ہیں:

تیسرا ظلم مہر کے بارے میں یہ بھی ہوتا تھا کہ بہت سے شوہر یہ سمجھ کر بیوی ان سے مجبور ہے مخالفت کر نہیں سکتی، دباؤ ڈال کر ان سے مہر معاف کرا لیتے تھے، جس سے درحقیقت معافی نہ ہوتی تھی، مگر وہ یہ سمجھ کر بے فکر ہو جاتے تھے کہ مہر معاف ہو گیا۔ اس ظلم کے انسداد کے لئے آیت مذکورہ میں ارشاد فرمایا:{فان طبن لکم عن شی منه نفسا فكلوہ ھنیئًا مریاًْ} یعنی اگر وہ عورتیں خوش دلی کے ساتھ اپنے مہر کا کوئی حصہ تمہیں دے دیں تو تم اس کو کھا سکتے ہو، تمہارے لیے مبارک ہو گا۔

مطلب یہ ہے کہ جبر واکراہ اور دباؤ کے ذریعہ معافی حاصل کرنا تو کوئی چیز نہیں، اس سے کچھ معاف نہیں ہوتا، لیکن اگر وہ بالکل اپنے اختیار اور رضامندی سے کوئی حصہ مہر کا معاف کر دیں یا لینے کے بعد تمہیں واپس کر دیں تو وہ تمہارے لیے جائز ہے اور درست ہے۔ یہ مظالمِ مذکورہ زمانہ جاہلیت میں بہت زیادہ تھے جن کا اندازا قرآن حکیم نے اس آیت میں فرمایا، افسوس ہے کہ جاہلیت کے زمانہ کی یہ باتیں مسلمانوں میں اب بھی موجود ہیں، مختلف قبیلوں اور علاقوں میں ان مظالم میں سے کوئی نہ کوئی ظلم ضرور پایا جاتا ہے، ان سب مظالم سے بچنا لازم ہے۔

آیتِ شریفہ میں جو یہ قید لگائی طیبِ نفس کی کہ خوشی سے تمہاری بیویاں اگر مہر کا کچھ حصہ تم کو دے دیں یا تم سے وصول ہی نہ کریں تو تم اس کو کھا سکتے ہو، اس میں ایک بہت بڑا راز ہے، بات یہ ہے کہ شریعت کا یہ اصول ہے کہ کسی کا ذرا سامال بھی کسی دوسرے کے لیے حلال نہیں ہے جب تک کہ طیبِ نفس سے اجازت نہ ہو، بطور قاعدہ کلیہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خبردار ظلم نہ کرو اور اچھی طرح سے سمجھ لو کہ کسی شخص کا مال(دوسرے شخص کے لیے) حلال نہیں ہے جب تک کہ اس کے نفس کی خوشی سے حاصل نہ ہو ۔ یہ ایک عظیم اصول ہے اور اس کے ماتحت بہت سے جزئیات آ جاتے ہیں۔

دور حاضر میں چوں کہ عورتیں یہ سمجھتی ہیں کہ مہر ملنے والا نہیں ہے، اگر سوال کروں یا معاف نہ کروں تو بد دلی یا بدمزگی پیدا ہو گی، اس لیے بادل ناخواستہ معاف کر دیتی ہیں، اس معافی کا کوئی اعتبار نہیں، سیدی حضرت حکیم الامت قدس سرہ فرماتے تھے کہ صحیح معنی میں طیبِ نفس سے معاف کرنے کا پتا اس صورت میں چل سکتا ہے کہ مہر کی رقم بیوی کے حوالہ کر دی جائے اس کے بعد وہ اپنی خوشی سے بغیر کسی دباؤ کے دے دے، یہی طیبِ نفس بہنوں اور بیبوں کی میراث میں بھی سمجھ لینا چاہیے، اکثر یہ ہوتا ہے کہ ماں یا باپ کے فوت ہو جانے پر لڑکے ہی پورے مال پر قابض ہو جاتے ہیں اور لڑکیوں کو حصہ نہیں دیتے، اگر کسی کو بہت دِین داری کا خیال ہوا تو بہنوں سے معافی مانگ لیتا ہے وہ چوں کہ یہ سمجھتی ہیں کہ حصہ کسی حال میں ملنے والا نہیں، اس لیے ئے اپنی مرضی کے خلاف معاف کرنے کو کہہ دیتی ہیں، پھر باپ کی وفات پر اس کی بیوی کا حصہ بھی نہیں دیا جاتا، خصوصاً سوتیلی ماں کو تو دیتے ہی نہیں، یہ سب حقوق دبا لینا ہے، اگر کوئی طیب نفس سے معاف کر دے تو معاف ہو سکتا ہے۔

الفقه الإسلامي وأدلته - (5 / 443،ط:دارالفکر دمشق):

يجب على المقترض أن يرد مثل المال الذي اقترضه إن كان المال مثلياً بالاتفاق، ويرد مثله صورة عند غير الحنفية إذا كان محل القرض مالاً قيمياً، كرد شاة تشبه الشاة التي اقترضها في أوصافها.

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144202200173

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں