بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کی مقدار اور اس کی شرعی حیثیت


سوال

1۔مہر کی کم سے کم مقدار اور زیادہ سے زیادہ مقدار کتنی ہونی چاہیے؟اور مہر فاطمی کی مقدار کی وضاحت فرمائیں؟

2۔بیوی کو حق مہر دینے کا شرعی حکم کیاہے؟آیا فرض ہے یا واجب ہے یاسنت ہے؟کیا حق مہر کے بغیر نکاح منعقد ہوسکتاہے؟

3۔ہمارے علاقے میں دستور یہ ہے کہ شادی والے دن لڑکے  کے ہاں ولیمہ کی دعو ت ہوتی ہے،اور اس کے باوجود لڑکی والے لڑکے والوں سے کچھ رقم کا مطالبہ کرتے ہیں ،اور اسی رقم سے اپنے ہاں لڑکی والے دعوت کرتے ہیں ،تو کیا یہ دستور شرعاً جائزہے؟

جواب

1۔مہر کی کم سے کم مقدار10 درہم ہے،اور  10 درہم کا وزن موجودہ زمانے کے رائج وزن کے اعتبارسے 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی ہے ، ( 30؍ گرام 618؍ ملی گرام چاندی) ، چاندی کی قیمت میں اتار چڑھاؤ ہوتارہتاہے،لہذا مہر کی ادائیگی کے وقت بازار سے اس کی قیمت معلوم کرلی جائے۔

مہرکی زیادہ سے زیادہ مقدار شریعت میں مقرر نہیں ہے ،البتہ  دونوں خاندان باہمی رضامندی سے جو مقدار طے کرلیں وہی مہر ہوگا،البتہ مہر  میں اتنی رقم مقرر کرلینا جس کی ادائیگی شوہر کے لیے مشکل ہو،یا محض دکھلاوے کے لیے زیادہ رقم مقرر کرلینا مناسب  نہیں ہے۔

2۔مہرِ فاطمی "  اُس مہر کو  کہا جاتا ہے جو نبی اکرم علیہ الصلاۃ  والسلام نے خاتونِ جنت سیدتنا حضرت فاطمۃ الزہراء رضی اللہ تعالیٰ عنہا اور دیگر صاحب زادیوں اور اکثر ازواجِ مطہرات کا مقرر فرمایا ، اُس کی مقدار۵۰۰ درہم چاندی ہے۔

مہر فاطمی تولہ کے اعتبار سے ایک سو، اکتیس تولہ، تین ماشہ  (131.25)  ہوتا ہے۔

2۔مہر عورت کا حق  ہے جو  نکاح  کی  وجہ  سے شوہر کے  ذمے اس کی ادائے گی واجب ہوتی ہے۔

3۔شادی کے موقع پرصرف  ولیمہ کی دعوت مسنون ہے ،اس کے علاوہ شادی کے موقع  پر لڑکی والوں کی طرف سے کھانے کی دعوت  کرنا ولیمہ کی طرح سنت نہیں ہے،اور پھر   لڑکے والوں سے رقم لے کر دعوت کرنا جو کہ رواج بن چکاہے،جیساکہ سائل کے سوال سے معلوم ہوتاہے، اگر  لڑکے والے عار سے بچنے کے لیے رواج کی بنیاد پر اپنی  دلی رضامندی کے بغیر وہ رقم دیتے ہیں تو اس رقم سےلڑکی والوں کا  دعوت کرنا شرعاً جائز نہیں ہے،جان بوجھ کر  ایسی دعوت میں شریک ہونے سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔

صحیح مسلم میں ہے:

"حدثنا إسحاق بن إبراهيم، أخبرنا عبد العزيز بن محمد، حدثني يزيد بن عبد الله بن أسامة بن الهاد، ح وحدثني محمد بن أبي عمر المكي، واللفظ له، حدثنا عبد العزيز، عن يزيد، عن محمد بن إبراهيم، عن أبي سلمة بن عبد الرحمن، أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم: كم كان صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قالت: «كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشاً»، قالت: «أتدري ما النش؟» قال: قلت: لا، قالت: «نصف أوقية، فتلك خمسمائة درهم، فهذا صداق رسول الله صلى الله عليه وسلم لأزواجہ."

(صحیح مسلم ،کتاب النکاح ،باب الصداق، ج: 4 ،ص: 144، رقم الحدیث: 1426، ط: دارالطباعۃ العامرۃ)

ترجمہ:

’’حضرت ابوسلمہؒ سے مروی ہےکہ انہوں نے حضرت عائشہؓ سے دریافت کیاکہ رسول اللہ ﷺ کی ازواجِ مطہرات کا مہر کتنا تھا؟ فرمایا: آپ ﷺ نے بارہ اوقیہ اورنش مہر دیا تھا، پھر حضرت عائشہؓ نے فرمایا: تم کو معلوم ہے نش کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں، حضرت عائشہؓ نے جواب دیا: آدھا اوقیہ (یعنی بیس درہم) اس طرح کل مہر پانچ سو درہم ہوا؛ یہی ازواج مطہرات کا مہر تھا‘‘۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(أقله عشرة دراهم) لحديث البيهقي وغيره "لا مهر أقل من عشرة دراهم ورواية الأقل تحمل على المعجل (فضة وزن سبعة) مثاقيل كما في الزكاة (مضروبة كانت أو لا)."

(کتاب النکاح ،باب المہر،ج: 3 ،ص: 101،ط: سعید)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"أقل المهر عشرة دراهم مضروبة أو غير مضروبة حتى يجوز وزن عشرة تبرا، وإن كانت قيمته أقل، كذا في التبيين وغير الدراهم يقوم مقامها باعتبار القيمة وقت العقد في ظاهر الرواية."

(کتاب النکاح ،الباب السابع فی المہر،الفصل الاول فی بیان مقدرا لمہر ،ج:1 ،ص: 302، ط: رشیدیۃ)  

کفایت المفتی میں ہے:

"لڑکی والوں کی طرف سے براتیوں کو یا برادری کو کھانا دینا لازم یا مسنون اور مستحب نہیں ہے ، اگر  بغیرالتزام کے وہ اپنی مرضی سے کھانا دے دیں تو مباح ہے، نہ دیں تو کوئی الزام نہیں"۔

(کفایت المفتی، 7/471، باب العرس والولیمہ، ط: فاروقیہ)

فتاوی محمودیہ میں ہے: 

"ازواج مطہرات رضی اللہ عنھن کا مہر ساڑھے بارہ اوقیہ چاندی کے برابر تھا،ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتاہے،پس یہ پانچ سو درہم جس کی مقدار تقریبا 131 تولہ چاندی ہے"۔

(کتاب النکاح ،باب المہر ،ج:12، ص: 29،ط: مکتبہ فاروقیہ کراچی)

جواہر الفقہ میں ہے:

"مہر فاطمی جس کی مقدار منقول پانچ سودرہم ہے،کما فی عامۃ روایات الحدیث،اس کی مقدار  موجودہ روپے سے ایک سو اکتیس تولہ تین ماشہ ہوئی "۔

(جوہر الفقہ ،اوزان شرعیہ ،سونے چاندی کا صحیح نصاب ،ج: 1،ص: 424، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144311100191

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں