بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کی قسمیں اور ادائیگی کا طریقہ


سوال

مہر کی کتنی قسمیں ہیں؟ اس کو ادا کرنے کی کیا صورت ہو سکتی ؟

جواب

واضح رہے کہ مہر کی دو قسمیں ہوتی ہیں:

1۔مہرِ معجل: معجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کا ادا کرنا نکاح کے فوری بعد ذمہ میں واجب ہوجاتا ہے اور بیوی کو نکاح کے فوری بعد اس کے مطالبہ کا پورا حق حاصل  ہوتا ہے۔

2۔مہرِ مؤجل: مؤجل سے مراد وہ مہر ہوتا ہے جس کی ادائیگی نکاح کے بعد فوری واجب نہ ہو، بلکہ اس کی ادائیگی کے لیے کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو یا اس کی ادائیگی کو مستقبل میں بیوی کے مطالبے پر موقوف رکھا گیا ہو،  اگر کوئی خاص میعاد مقرر کی گئی ہو تو بیوی کو اس مقررہ وقت کے آنے سے پہلے اس مہر کے مطالبے کا حق نہیں ہوتا، اور اگر بیوی کے مطالبہ پر موقوف رکھا گیا ہو تو بیوی جب بھی مطالبہ کرے گی اس وقت شوہر کے ذمہ یہ مہر ادا کرنا لازم ہوجائے گا، لیکن   اگر مہر مؤجل کے لیے نہ تو کوئی خاص وقت مقرر کیا گیا ہو  یا نہ ہی بیوی کے مطالبہ پر موقوف کیا گیا ہو، تو پھر اس صورت میں اس کی ادائیگی طلاق یا موت کی وجہ سے فرقت کے وقت لازم ہوگی۔

نيز مہر کا معجل یا مؤجل مقرر کرنا  زوجین کی آپس کی رضامندی پر موقوف ہوتا ہے، چاہے سارا مہر معجل مقرر کیا جائے، چاہے سارا کا سارا مؤجل مقرر کیا جائے اور چاہے تو مہر کا کچھ حصہ معجل طے کیا جائے اور کچھ حصہ مؤجل طے کیا جائے،بہر صورت مہر کی ادائگی شوہر کے ذمہ لازم ہے۔

المصنف لابن أبي شيبة:

"هشيم، عن يونس، عن الحسن، أنه كان يقول في الآجل من المهر: "هو حال إلا أن تكون له مدة معلومة."

(کتاب النکاح، ‌‌في الرجل يتزوج المرأة على صداق عاجل أو آجل،ج:3،ص:476، ط:مكتبة الرشد)

فتاوی عالمگیریہ میں ہے:

"وإن بينوا قدر المعجل يعجل ذلك، وإن لم يبينوا شيئا ينظر إلى المرأة وإلى المهر المذكور في العقد أنه كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر فيجعل ذلك معجلا ولا يقدر بالربع ولا بالخمس وإنما ينظر إلى المتعارف، وإن شرطوا في العقد تعجيل كل المهر يجعل الكل معجلا ويترك العرف، كذا في فتاوى قاضي خان۔۔۔وإذا كان المهر مؤجلا أجلا معلوما فحل الأجل ليس لها أن تمنع نفسها لتستوفي المهر على أصل أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، كذا في البدائع. تزوج امرأة على ألف إلى سنة فأراد الزوج الدخول بها قبل السنة قبل أن يعطيها شيئا فإن شرط الزوج الدخول بها في العقد قبل السنة فله ذلك وليس لها المنع عنه بلا خلاف، كذا في جواهر الأخلاطي، وإن لم يشترط قال محمد - رحمه الله تعالى - له ذلك كالبيع وبه كان يفتي الإمام الأستاذ ظهير الدين وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - ليس له ذلك وبه كان يفتي الصدر الشهيد، كذا في الخلاصة۔۔۔لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة."

(كتاب النكاح،الباب السابع في المهر،الفصل الحادي عشر في منع المرأة نفسها بمهرها والتأجيل في المهر،ج:1،ص:318،ط:رشيدية)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144403100349

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں