بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

20 شوال 1445ھ 29 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہرکی ادائیگی میں کس قیمت کا اعتبارہوگا ؟


سوال

شادی کو ایک سال ہوگیا ، حق مہر رکھا گیا 2 تولہ سونا ، اس میں سے پونے ایک تولہ ادا کردیا گیاتھا، اور باقی سوا ایک تولہ باقی ہے جو کہ ایک سال بعد ادائیگی کرنا ہے، اس طرح ، کیا وہ حق مہر اُسی قیمت کے اعتبار سے ادا کرنا ہوگا یا موجودہ قیمت کے اعتبار سے ؟ اور اس وقت سونے کی قیمت (ڈیڑھ لاکھ) تھا جبکہ آج کی قیمت 2 لاکھ 25 ہزار سے اوپرہے ۔

جواب

صورتِ   مسئولہ میں مہر میں طے شدہ سونے کے بجائے اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے، تاہم سونے کی قیمت موجود ہ قیمت کے اعتبار سے دینی ہوگی، جس وقت مہر مقرر کیا تھا اس وقت کی قیمت کا اعتبار نہ ہوگا۔

الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے :

"إن الديون ‌تقضى ‌بأمثالها؛ لأن قبض نفس الدين غير متصور استيفاؤه، لأنه وصف ثابت في ذمة من عليه الدين، فكان استيفاء الدين عبارة عن نوع مبادلة، وهو مبادلة ما يأخذه عيناً بما في ذمة المدين."

(الفصل التاسع في الوكالة ،ج:5 ،ص:4088 ،ط:دارالفكر)

فتاوی شامی میں ہے:

"(قوله: وحكمه ثبوت الملك) أي في البدلين لكل منهما في بدل، وهذا حكمه الأصلي، والتابع وجوب تسليم المبيع والثمن، ووجوب استبراء الجارية على المشتري، وملك الاستمتاع بها، وثبوت الشفعة لو عقارا، وعتق المبيع لو محرما من البائع بحر، وصوابه من المشتري."

(كتاب البيوع، ج:4، ص:506، ط:ايج ايم سعيد)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجاز التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا: أي مشارا إليه ولو ‌دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن ملك (قبل قبضه) سواه (تعين بالتعيين) كمكيل (أولا) كنقودفلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر وأجرة وضمان متلف) وبدل خلع وعتق بمال وموروث موصى به.والحاصل: جواز التصرف في الاثمان والديون كلها قبل قبضها".....

"(قوله: وكذا الحكم في كل دين) أي يجوز التصرف فيه قبل قبضه، لكن بشرط أن يكون تمليكا ممن عليه بعوض أو بدونه كما علمت، ولما كان الثمن أخص من الدين من وجه كما قررناه بين أن ما عداه من الدين مثله. (قوله: كمهر إلخ)وكذالقرض."

(كتاب البيوع،باب المرابحۃ،والتولیۃ، ج،5،ص،152/153، سعید)

بحر الرائق میں ہے:

"فالحاصل أن الاعتبار ليوم العقد في حق التسمية وليوم القبض في حق دخوله في ضمانها."

(باب المھر،ج،3،ص،153،ط،دار الکتاب الإسلامي)

فقط والله أعلم 


فتوی نمبر : 144501100729

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں