بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 شوال 1445ھ 18 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کا حکم


سوال

میری بیٹی کی شادی 4 سال پہلے میرے بھانجے کے ساتھ ہوئی اور رخصتی بھی ہوچکی ہے،  اس عرصہ میں ان کی اولاد نہیں ہوئی، اس وجہ سے آہستہ آہستہ بچی پر ظلم و زیادتی شروع کردی گئی، تقریباً ڈیڑھ سال پہلے لڑکے نے لوگوں کے سامنے کہا کہ میں نہیں رکھنا چاہتا، اپنی بیوی پر الزام و بہتان لگا کر گھر سے نکال کر واپس بھیج دیا، جب صلح صفائی کے لیے رابطہ کیا گیا تو جواب میں ان لوگوں نے کہا کہ لڑکا بچی کو نہیں رکھنا چاہتا، لہذا وہ طلاق دیتا ہے، بچی کی طرف سے یا میری طرف سے طلاق کا کوئی مطالبہ نہیں ہے، جب بات نہ بنی تو ہم نے کہا کہ بچی کو حقِ مہر ادا کیا جائے اور باعزت معاملہ ختم کردیں، لڑکا بیوی کو رکھنا نہیں چاہتا، وہ حقِ مہر ادا کرنے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔

دریافت یہ کرنا ہے کہ حقِ مہر کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ بچی حقِ مہر کے مطالبے کا حق رکھتی ہے یا نہیں؟

واضح رہے کہ شوہر نے ابھی تک طلاق نہیں دی اور نکاح کے وقت پورا مہر معجل طے ہوا تھا۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں چونکہ مہر معجل ہے ،اس لیے شوہر پر شرعاً لازم ہے کہ وہ بیوی کو مہر ادا کرے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(وأما أحكامه) فحل استمتاع كل منهما بالآخر على الوجه المأذون فيه شرعا، كذا في فتح القدير وملك الحبس وهو صيرورتها ممنوعة عن الخروج والبروز ووجوب المهر والنفقة والكسوة عليه وحرمة المصاهرة والإرث من الجانبين...إلي آخره."

ـ(کتاب النکاح، الباب الاول، ج: 1، ص: 270، ط: مکتبہ رشیدیہ)

و فیہ ایضاً:

"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراء من صاحب الحق، كذا في البدائع."

(کتاب النکاح، الباب السابع فی المہر، الفصل الثانی فیما یتاکد بہ المہر، ج: 1، ص: 304، ط: مکتبہ رشیدیہ)

فقط و اللہ اعلم


فتوی نمبر : 144307101901

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں