بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

10 شوال 1445ھ 19 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر غیرمعجل کی صورت میں بیوی کا مطالبہ کرنا


سوال

نکاح کے وقت اگر مہر ”غیر معجل“لکھا ہو اور شادی کے 12 سال بعد اگر بیوی کہے کہ مجھے میرا حق مہر دے دیں اور پھر کچھ دیر بعد بولے کہ میری نیت فوراً مانگنے کی نہیں تھی اس صورت میں خاوند کیلئے کیا حکم ہے؟ کیا اسے فوری طور پر حق مہر ادا کرنا ہوگا، اگرچہ فوری طور پر وہ اس پوزیشن میں نہ ہو کیا اس دوران بیوی سے قربت اختیار کی جا سکتی ہے؟۔  احمد نواز 03025224787

جواب

صورتِ  مسئولہ میں جو حق مہر   غیر معجل یعنی مؤجل لکھا ہوا ہے ، اگر  یہ مؤجل عند الطلب تھا (یعنی بیوی کے مطالبہ کرنے پر دینا تھا ) تو  بیوی کے  مطالبے پر شوہر پر مہر ادا کرنا ضروری ہے۔  اور  اگر مہر مؤجل تھا خاص  مدت تک (مثلا ایک سال یا دو سال ) تو اگر مدت گزر گئی  ہے تو بیوی کو مطالبے کا حق ہے اور شوہر کے  لیے مہر ادا کرنا ضروری ہے اور  مدت گزرنے سے پہلے بیوی کو  مطالبے کا حق نہیں ہے اور  مہر مؤجل اور تاجیل کی کوئی مدت مقرر نہیں تھی تو  اس کی مدت فرقت ( یعنی طلاق  یا موت  ہے ) بیوی کو اس سے پہلے مطالبے کا حق نہیں ہے، البتہ اگر مہر ادا نہیں کیا تو پہلی دو صورتوں میں بیوی اگر  رضامند ہے تو ہم بستری کرنا جائز ہے اور اگر بیوی منع کر دے تو اس کو منع کرنے کا حق حا صل ہے اور تیسر ی صورت میں بیوی کو منع کا حق حا صل نہیں ہے  ۔ البتہ چونکہ مہر بیوی کا حق ہے، اس لئے اس کی ادائیگی کی فکر کرنی چاہیئے موت و فرقت تک اس کو چھوڑنا نہیں چاہیئے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے۔

"وإذا كان المهر مؤجلا أجلا معلوما فحل الأجل ليس لها أن تمنع نفسها لتستوفي المهر على أصل أبي حنيفة ومحمد - رحمهما الله تعالى -، كذا في البدائع.    تزوج امرأة على ألف إلى سنة فأراد الزوج الدخول بها قبل السنة قبل أن يعطيها شيئا فإن شرط الزوج الدخول بها في العقد قبل السنة فله ذلك وليس لها المنع عنه بلا خلاف، كذا في جواهر الأخلاطي، وإن لم يشترط قال محمد - رحمه الله تعالى - له ذلك كالبيع وبه كان يفتي الإمام الأستاذ ظهير الدين وقال أبو يوسف - رحمه الله تعالى - ليس له ذلك وبه كان يفتي الصدر الشهيد، كذا في الخلاصة.

ولو شرط عليها أن يدخل بها قبل إيفاء المعجل صح الشرط ولو كان المهر مؤجلا ثم عجل عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لها أن تمنع، كذا في العتابية. ولو كان بعضه عاجلا وبعضه آجلا فاستوفت العاجل وكذلك لو أجلته بعد العقد مدة معلومة ليس لها أن تحبس نفسها وعلى قول أبي يوسف - رحمه الله تعالى - لها أن تحبس نفسها إلى استيفاء البدل عند الأجل، كذا في شرح الجامع الصغير لقاضي خان.

ولو قال نصفه معجل ونصفه مؤجل كما جرت العادة في ديارنا ولم يذكر الوقت للمؤجل اختلف المشايخ فيه قال بعضهم لا يجوز الأجل ويجب حالا وقال بعضهم يجوز ويقع ذلك على وقت وقوع الفرقة بالموت أو بالطلاق وروى عن أبي يوسف - رحمه الله تعالى - ما يؤيد هذا القول، كذا في البدائع لا خلاف لأحد أن تأجيل المهر إلى غاية معلومة نحو شهر أو سنة صحيح، وإن كان لا إلى غاية معلومة فقد اختلف المشايخ فيه قال بعضهم يصح وهو الصحيح وهذا؛ لأن الغاية معلومة في نفسها وهو الطلاق أو الموت ألا يرى أن تأجيل البعض صحيح، وإن لم ينصا على غاية معلومة، كذا في المحيط. وبالطلاق الرجعي يتعجل المؤجل ولو راجعها لا يتأجل، كذا أفتى الإمام الأستاذ، كذا في الخلاصة."

( الفتاوى الهندية،کتاب النکاح،  الباب السابع فی المہر، 1 / 318 / ط : دارا لفکر )

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101809

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں