بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

9 جُمادى الأولى 1446ھ 12 نومبر 2024 ء

دارالافتاء

 

محکمہ بورڈ آف ریونیو یا سول سیکرٹریٹ میں سیکشن آفیسر کی نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں؟


سوال

محکمہ بورڈ آف ریونیو یا سول سیکرٹریٹ میں سیکشن آفیسر کی نوکری کرنا جائز ہے یا نہیں؟

جواب

صورت مسئولہ میں اگر ٹیکس جمع کرنے والا  محکمہ (بورڈ آف رینیو)   میں  مندرجہ ذیل شرائط :

1۔۔۔حکومت کے جائز مصارف واقعی دیگر ذرائع سے پورے نہیں ہوتے ہوں، اور حکومت ان جائز مصارف کو پورا کرنے میں ٹیکس لگانے پر مجبور ہو۔

2۔ ۔۔بقدرِ ضرورت ہی ٹیکس لگایا جائے۔

3۔۔۔لوگوں کے لیے قابلِ برداشت ہو۔

4۔۔۔۔وصولی کا طریقہ مناسب ہو۔

5۔ ۔۔ٹیکس کی رقم کو ملک و ملت کی واقعی ضرورتوں اور مصلحتوں پر صرف کیاجائے۔ 

کے مطابق  ٹیکس وصول کیا جاتا ہو تو  پھر اس محکمہ (بورڈ آف رینیو)   میں نوکری کرنا جائز ہے، اور اگر مندرجہ ذیل شرائط کا خیال نہیں رکھا جاتا ہو تو پھر  اس محکمہ (بورڈ آف رینیو)   میں ملازمت کرنا ظلم یا ظلم میں اعانت کرنے کی وجہ سے  جائز نہیں ، ایسا ٹیکس لینے والوں کے متعلق احادیث میں سخت وعید آئی ہے۔

"عن عقبة بن عامر، قال: سمعت رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "لا يدخل الجنة صاحب مكس".

أخرجه ابوداود في سننه في باب في السعاية على الصدقة (4/ 562) برقم (2937)، ط. دار الرسالة العالمية، الطبعة  الأولى: 1430 هـ - 2009 م

بذل المجہود فی حل سنن ابی داود میں ہے:

" (لا يدخل الجنة صاحب مكس). قال في "النهاية" : المكس: الضريبة التي يأخذها الماكس، وهو العشار, لأن الغالب فيه الظلم، فالأمير يستحق النار بأمره بذلك، والعشار يستحق النار بإعانته في ذلك. قال في "القاموس": مكس في البيع يمكس: إذا جبى مالا، والمكس: النقص، والظلم، ودراهم كانت تؤخذ من بائعي السلع في الأسواق في الجاهيلة، أو درهم كان يأخذه المصدق بعد فراغه من الصدقة."

(باب في السعاية على الصدقة (10/ 116، 117)، ط. مركز الشيخ أبي الحسن الندوي للبحوث والدراسات الإسلامية، الهند، الطبعة الأولى:1427 هـ = 2006 م)

نیز اسی طرح سول سیکرٹریٹ کے کسی شعبہ میں کہ جہاں غیر شرعی اور ناجائز  امور سر انجام نہیں دئیے جاتے ہوں اس میں ملازمت اختیار کرنا شرعا جائز اور درست ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"ومنها أن يكون مقدور الاستيفاء - حقيقة أو شرعا فلا يجوز استئجار الآبق ولا الاستئجار على المعاصي؛ لأنه استئجار على منفعة غير مقدورة الاستيفاء شرعا".

(كتاب الإجارة، الباب الأول في تفسير الإجارة، وركنها والفاظها وشرائطها (4/ 411)، ط. رشيديه)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144308101174

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں