بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

محجوب وارث کے لیے وصیت کرنے کا حکم


سوال

محجوب وارث کے لیے وصیت کرنا کیسا ہے؟

جواب

ازروئے شرع کسی بھی ایسے محجوب وارث کے حق میں وصیت کرنا درست ہے جو ترکہ سے بالکلیۃ محجوب ہورہا ہو،البتہ اِس وصیت کے نفاذ کے لیے ضروری ہے کہ  مُوصیٰ لہ(مذکورہ محجوب وارث) مُوصِی(وصیت کرنے والے شخص) کے انتقال کے وقت بھی محجوب  رہے، چنانچہ مُوصی کے انتقال کے وقت اگر مُوصیٰ لہ وجہ حُجب کے ختم ہونے سے وارث بن کرترکہ کا حق دار بن جائے ،تو اُس کے حق میں مذکورہ وصیت کالعدم ہوجائے گی ۔

بدائع الصنائع میں ہے:

" الشرط أن لا يكون وارث الموصي وقت موت الموصي لا وقت الوصية حتى لو أوصى لأخيه وله ابن وقت الوصية، ثم مات قبل موت الموصي، ثم مات الموصي لم تصح الوصية؛ لأن الموصى له، وهو الأخ صار وارث الموصي عند موته ولو أوصى لأخيه ولا ابن له وقت الوصية، ثم ولد له ابن، ثم مات الموصي صحت الوصية؛ لأن الأخ ليس بوارثه عند الموت لصيرورته محجوبا بالابن."

(كتاب الوصايا، فصل في شرائط ركن الوصية، الشرط الذي يرجع إلى الموصى له، ج:7، ص:337، ط:دارالكتب العلمية)

الموسوعۃ الفقہیۃ الکویتیۃ میں ہے:

"والعبرة بكونه وارثا بالاتفاق هو وقت موت الموصي، لا وقت إنشاء الوصية، لأن الوصية تمليك مضاف إلى ما بعد الموت، وحكمه يثبت بعد الموت، فلو كان غير وارث عند الوصية، كأخ مع وجود ابن، ثم صار وارثا بأمر حادث عند الموت كأن مات الابن، صارت الوصية موقوفة، ولو كان وارثا عند إنشاء الوصية، ثم أصبح عند الموت غير وارث، بسبب حجبه مثلا، كأن أوصى لأخ ولا ولد له، ثم ولد له، نفذت الوصية؛ لأن العبرة في الإرث وعدمه هو وقت وفاة الموصي، ولأن هذا الوقت هو أوان ثبوت حكم الوصية الذي هو ثبوت ملك الموصى به."

(بحث الوصية، ج:43، ص:248، ط:دارالصفوة)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144502100279

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں