بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شوال 1445ھ 16 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

ماہی گیر جس کی ملکیت میں لاکھوں روپے مالیت والی لانچ اور بوٹ ہو مستحقِ زکات ہوگا یا نہیں؟


سوال

 ہمارا ذریعہ معاش ماہی گیری ہے، سمندر بندہے، ہمارے پاس کوئی نقدی رقم نہیں ہے، لیکن ہمارے پاس لانچیں اور بوٹ ہیں جن کی قیمت دس سے پندرہ لاکھ ہے، آیا ہم زکات کے مستحق ہوسکتے ہیں؟ ہمارے لیے زکات لینا جائز ہوگا ؟

جواب

آپ کی لانچیں اور بوٹ آپ کی اشیاء ضرورت میں داخل ہیں؛ اس لیے اگر آپ لوگوں کی ملکیت میں بنیادی  ضرورت  و استعمال ( یعنی رہنے کا مکان ، گھریلوبرتن ، کپڑے، فرنیچر، سواری وغیرہ )سے زائد،  نصاب کے بقدر  (یعنی صرف سونا ہو تو ساڑھے سات تولہ سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی یا اس کی موجودہ قیمت  کے برابر)  مال یا  سامان موجود نہ ہو تو آپ لوگ زکات کے مستحق ہیں اور آپ لوگوں کے  لیے زکات لینا جائز ہے بشرطیکہ آپ لوگ سید/عباسی نہ ہوں۔

الفتاوى الهندية (1/ 189):

"لايجوز دفع الزكاة إلى من يملك نصابًا أي مال كان دنانير أو دراهم أو سوائم أو عروضًا للتجارة أو لغير التجارة فاضلًا عن حاجته في جميع السنة، هكذا في الزاهدي. والشرط أن يكون فاضلًا عن حاجته الأصلية، وهي مسكنه، وأثاث مسكنه وثيابه وخادمه، ومركبه وسلاحه، و لايشترط النماء إذ هو شرط وجوب الزكاة لا الحرمان، كذا في الكافي. ويجوز دفعها إلى من يملك أقل من النصاب، وإن كان صحيحًا مكتسبًا، كذا في الزاهدي".

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144108200666

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں