بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محفلِ حسنِ قراءت منعقد کرنے کا حکم


سوال

قرآنِ پاک کی تجوید و  قراءت پر مبنی محفلِ قراءت منعقد کرنا کیسا عمل ہے؟

جواب

ملحوظ رہے ایسی دینی محفلیں اور مختلف قسم کی دینی اجتماعات جو اشاعتِ قرآن اور  ترویجِ دین کا ذریعہ ہو، شرعی حدود میں رہتے ہوئے ایسے محافل کو منعقد کرنا نہ صرف جائز  ہے،  بلکہ باعثِ اجر وثواب کام بھی ہے، تاہم اگر یہ محافل مختلف مروّجہ رسومات  کی نذر ہوکر محرّمات ومنکرات  (جاندار کی ویڈیو، نام و نمود وغیرہ) کا مجموعہ بن  جائیں (جیسا کہ آج کل کا عام مشاہدہ ہے) تویہی محافل  بہت سے معاصی کا مجموعہ بن  جاتی ہیں، اور بجائے ثواب کے گناہ کاباعث بن جاتی ہیں،  جس کی بنا  پر ایسی محافل  کے  انعقاد پر لوگوں کے ذہنوں میں اس کی  شرعی حیثیت کے بارے سوالات پیدا ہوجاتے ہیں؛  لہذا ایسی محافل کو نیک مقاصد یا فوائد کے  ساتھ  ساتھ عمومی مفاسد اور خرابیوں  سے پاک رکھنا بھی لازم اور ضروری ہے۔

بصورتِ مسئولہ محفلِ قراءت منعقد کرنا  اپنے فوائد (مثلاًتجوید کے ساتھ قرآنِ پاک لوگوں تک پہنچانا، قرآن کی عملی تبلیغ وغیرہ)کی وجہ سے جائز اور مستحن عمل ہے، تاہم یہ محافل مروّجہ رسومات (جس میں شرعی حدود کی پاس داری نہ ہو)  کی بنا  پر ایسے محرمات ومنکرات کا مجموعہ بن  چکی ہیں، جس کی وجہ سے مذکورہ محافل باعثِ ثواب کام ہونے کے بجائے  بسا اوقات گناہ  کا ذریعہ بن جاتی ہیں، اور جو کارِ خیر باعث ثواب ہونے کے بجائے گناہ  تک مفضی  (پہنچانے والا) ہو  شریعت میں اس کام کی اجازت نہیں ہے،  بلکہ اس کے متبادل ایسا طریقہ اختیار کرنا چاہیے جو شرعی مفاسد سے پاک ہو، مثلاً مسجد کے امام و خطیب اگر خود اچھے قاری ہوں تو وہ کبھی کبھی نماز کے علاوہ بھی نماز سے متصل بعد لوگوں کو ایک دو رکوع اچھے انداز سے  پڑھ کر سنا دیں۔کبھی کبھی بغیر کسی تشہیر وغیرہ کے کسی اچھے مجوّد سے قرآن پڑھ والیا کریں، اس طرح لوگوں میں قرآن پڑھنے کا شوق پیدا ہونے  کے  ساتھ ساتھ قرآن کی عملی تبلیغ بھی ہوجایا کرےگی، اور مروّجہ محفلوں کی خرابیوں سے بھی حفاظت ہوجائےگی۔

محافلِ حُسنِ قراءات کے انعقاد کے حوالے سے ایک سوال کے جواب میں جامعہ سے تفصیلی فتویٰ جاری ہوچکا ہے، اس کے منتخب اقتباسات درج کیے جاتے ہیں، جامعہ کے سابقہ فتاویٰ  میں ہے:

’’۔۔۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ جب محفلِ حُسنِ قراءت کا انعقاد نہ فرض ہے نہ ضروری  تو ایسے جائز کام کے لیے لاکھوں روپے خرچ کرکے بے شرع قاریوں کو بلانا صحیح نہیں اور ایسی کمیٹیوں کے منتظمین کو بھی اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ کہیں ان کی نیک نیتی کے راستے شیطان اپنے مقاصد تو نہیں نکال رہا، کیا کہیں قرآن سے رغبت کے بجائے دوری تو پیدا نہیں ہوگی۔۔۔

واضح رہے کہ اصل کے اعتبار سے نیکی کے کاموں پر اجرت لینا درست نہیں، لیکن زمانہ کی ضرورت کے تحت فقہاءِ کرام نے چند چیزوں پر اجرت لینے کی گنجائش دی ہے، اور اس کے ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ ان چند چیزوں کے علاوہ کسی دینی کام پر اجرت لینا ہرگز جائز نہیں ۔۔۔ جب کہ قراءِ کرام کا پیشگی یہ طے کرنا کہ ہر محفل  کے اتنے لاکھ لیں گے، اسی طرح ایک محفل میں دوسری بار تلاوت کرنے کے دوبارہ روپے طے کرنا طاعات پر اجرت طے کرنے کے زمرے میں آتاہے، اگرچہ ان قاریوں کو آنے جانے کے اخراجات ادا کیے جاسکتے ہیں۔

نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے کہ جس نے قرآن اس لیے پڑھا تاکہ وہ لوگوں سے مال و منال حاصل کرے تو قیامت میں اس کا حشر اس حال میں ہوگا کہ اس کے چہرے پر گوشت کا نام و نشان نہیں ہوگا، بلکہ ایک ہڈی کی طرح ہوگا ۔۔۔ اس سے معلوم ہوا کہ قابلِ تحسین قاری اور قراءت وہ ہے جس میں رضاءِ خداوندی پیشِ نظر رہے، اگرچہ پڑھنے والا گلاسنوار سنوار کے نہ پڑھے، اور قابلِ مذمت قاری اور قراءت وہ ہے جس میں دنیاوی فائدے کو مدنظر رکھا جائے ۔۔۔  لہٰذا ایسی محافل کے سرکردہ لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان نیکی اور خیر خواہی کی مجالس میں ایسے حضرات کو مدعو نہ کریں جن کا مطمحِ نظر دنیاوی مال و دولت ہو، پھر مستزاد یہ کہ ایسے قراءِ کرام اپنی فیس پیشگی بتلادیتے ہیں، حال آں کہ جب معاوضہ طے کرکے لیا جائے تو معاوضہ دینے اور لینے والے حضرات برابر طور پر گناہ گار ہوں گے۔۔۔ تو آخر ایسی کیا مجبوری ہے کہ اپنی آخرت برباد کرکے ایک مباح کام کے لیے ایسے قاریوں کو اپنے ہاں بلایاجائے ۔۔۔

جان دار کی تصویر کے ناجائز ہونے کے بارے میں  حضور ﷺ کے کس قدر سخت فرامین ہیں، جو یقینًا کسی عام مسلمان سے بھی مخفی نہیں، ان ارشادات کو مدنظر رکھنے والا مسلمان کبھی بھی ایسا اقدام نہیں کرسکتا۔ ایسی محافل کا انعقاد کرنے والوں کو خود ہی غور کرنا چاہیے کہ ویڈیو فلم بناکر اور تصویر کھنچواکر بے شرع اور دنیا کے طالب لوگوں کو جب عوام کے سامنے لایا جائے گا تو انجام کار اس سے دین پھیلے گا یا دین کے نام پر بے دینی فروغ پائے گی، اور اب تک شرعًا ناجائز قرار دی جانے والی اشیاء کو شرعی لبادہ پہنایا جائے گا۔ اور ٹی وی، وی سی آر وغیرہ جو کہ رکھنا اور دیکھنا حرام ہے، اس کو لوگ جائز سمجھ کر گھر میں رکھیں گے، اور ان ہی چیزوں کے ذریعے غیر مسلم کافروں کے دیرینہ مقاصد پورے ہوں گے۔

فلم، اسکرین یا انٹرنیٹ پر قاری کی تصویر کے ساتھ یہ پروگرام دیکھنا جائز نہیں؛ کیوں کہ اس میں بھی تصویر سازی کا عمل پایا جاتاہے؛ لہٰذا اس کا دیکھنا اور دکھانا شرعًا ناجائز ہے۔

آخر میں ہم مخدوم جعفررحمہ اللہ کی کتاب سے ایک عبارت  (کا ترجمہ) نقل کرتے ہیں، جو محافلِ حُسنِ قراءت کے منتظمین کو بطورِ خاص ملحوظ رکھنی چاہیے:

۔۔۔۔ ترجمہ: مجالس میں قرآنِ مجید کی قراءت کرنا مکروہ ہے؛ کیوں کہ تلاوت کرنے والا دنیاوی لالچ میں تلاوت کرتاہے، یہی حکم ہے بازاروں میں تلاوت کرنے کا اور قبر پر تلاوت کرنے کا، کہا گیا ہے کہ اگر کسی آدمی نے تلاوتِ قرآنِ مجید کی، لیکن اس نے لوگوں سے سوال نہ کیا، مگر لوگوں نے اس کو سوال کیے بغیر کچھ دے دیا تو کہا گیا ہے کہ یہ بھی مکروہ ہے، کیوں کہ اگر اس کا مقصد لوگوں سے (دنیاوی نفع) طلب کرنا نہیں تھا تو وہ کیوں نہ اپنے گھر بیٹھ گیا ہوتا اور قرآنِ مجید کی تلاوت کرتا۔ (انتہی) یہ حکم اس سے جدا ہے کہ جب کوئی آدمی محض تذکر اور نصیحت و موعظت کے لیے تلاوت کرے، جیساکہ حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے لیے تلاوت کرنے کا واقعہ گزرچکاہے ۔ ۔۔

الجواب صحیح: محمد عبدالمجید دین پوری۔ محمد انعام الحق‘‘

مکتوباتِ امامِ ربّانی (قطبِ ربّانی سید احمد سرہندی مجدد الف ثانی المتوفی:1624ء) میں ہے:

"بنظر انصاف بہ بینید اگر حضرت ایشان فرضاً درین زمان موجودہ بودند، ودر دنیا زندہ می بودند،  واین مجالس واجتماع کہ منعقدمی شد، آیا باین راضی می شدند؟ داین اجتماع رامی پسندیدند یا نہ؟  یقیں فقیر آنست کہ ہرگز این معنی را تجویز نمی فرمودند بلکہ انکار مےنمودند، مقصود فقیراعلام بود،  قبول کندیا نکنندہیچ مضائقہ نیست،  وگنجائش مشاجرہ نہ،  اگر مخدوم زادہا دیارانِ آنجا برہمان وضع مستقیم باشد، مافقیران را ازصحبت ایشان غیر ازحرمان چارہ نیست، انتہیٰ زیادہ چہ تصدیعہ دہد والسلام،" 

( دفترِ دوم، ص:22، ط:مدینہ پبلیشنگ کمپنی لاہور)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144207201202

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں