بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر معاف کرنے اور بری کے سامان کا حکم


سوال

میں نے اپنی بیوی کو آپس میں لڑائی جھگڑے کی وجہ سے طلاق دے دی ہے ،اب چند باتوں کے بارے میں شرعی حکم معلوم کرناہے:

1:میں نے حق مہر میں پچاس ہزار روپے لکھوائے تھے ،جو میں نے شادی کی پہلی رات بیوی کے ہاتھ پر رکھ دیئے تھے ،لیکن بیوی نے مجھے وہ واپس کردیئے تھے اور کہا تھا کہ میں نے معاف کر دیا ،اب اس بارے میں شرعی حکم بتادیں کہ کیا اس طرح کہنے سے مہر معاف ہوگیا یا مجھے وہ مہر ادا کرنا ہوگا؟

2:بری کے سامان کے بارے میں ہمارا اختلاف ہے ،وہ لوگ کہتے ہیں کہ بری میں جو سامان ،زیورات وغیرہ دیئے تھے وہ بھی شرعی طور پر ہمارا حق ہے ،وہ بھی ہمیں دینا ہوگا،سارا سامان ہمارے گھر پڑا ہوا ہے ،اب شرعی حکم بتادیں کہ کیا بری والا سامان شرعا ان کا حق بنتاہے یا نہیں ؟اگر ان کا حق بنتاہے تو میں ان کو وہ دے دوں گا۔

3:اسی طرح ایک گاڑی انہوں نے شادی کے وقت مجھے دی تھی ،جو بعد میں میں نے بیچ دی تھی اور دوسری گاڑی خرید لی تھی ،اب لڑکی والے کہہ رہے ہیں کہ ہمیں اس گاڑی کی آج کل کے حساب سے جو قیمت بنتی ہے آپ دیں گے،اب معلوم یہ کرنا ہے کہ اس گاڑی کی قیمت جو چالیس ہزار بنی تھی،وہ مجھے ان کو دینی ہوگی یا آج کل کے حساب سے جو قیمت بنتی ہے ،وہ دینی ہوگی؟

4:اور میری مطلقہ کو عدت کے دوران مجھے کتنا خرچہ دینا ہوگا؟طلاق سے پہلے میں نے اسے اس کے والدین کے گھر  بھیج دیا تھا اور دو دن بعد طلاق کے کاغذات وہاں اس کو بھیج دیئے تھے ۔

جواب

1:صورتِ مسئولہ میں اگر عورت مہر معاف کرنے سے منکرنہ ہو بلکہ معاف کرنے کا اقرار کرتی ہو تو اس صورت میں مہر معاف ہوگیا ،بعد میں عورت کو مہر کی ادائیگی کا مطالبہ کرنے کا حق نہ ہوگا،اور اگر عورت معاف کرنے سے انکار کرتی ہو اور شوہر کے پاس معاف کرنے پر دو شرعی گواہ یا کوئی مستند تحریری ثبوت ہو تو بھی مہر معاف ہوکر اس کی ادائیگی لازم نہیں ہوگی ،اور اگر عورت مہر معاف کرنے سے انکار کرتی ہو اور شوہر کے پاس معاف کرنے پر دو شرعی گواہ یا کوئی معتبر ثبوت نہ ہو تو شوہر پر مہر ادا کرنا لازم ہوگا۔

2:صورتِ مسئولہ میں  سسرال  والوں کی طرف سے جو عام  استعمال کی چیزیں مثلاً کپڑے ، جوتے ، گھڑی وغیرہ لڑکی کو  دی  گئی تھیں ، اسی طرح منہ دکھائی کے موقع پر جو چیز یں دی   گئیں  تھیں ، یہ سب   لڑکی  ہی کی ملکیت  ہیں ،اور  لڑکی کو  نکاح  یا رخصتی کے موقع پر مہر کے علاوہ جو  زیورات سسرال والوں کی طرف سے دیے  گئے تھے ، ان میں یہ تفصیل ہے کہ اگر  زیورات دیتے وقت  سسرال والوں نے اس بات  کی صراحت کی تھی کہ یہ  بطورِ عاریت یعنی صرف  استعمال کرنے کے لیے ہیں  تو پھر یہ  زیورات لڑکے والوں کی ملکیت ہوں گے، اور اگرسسرال والوں نےہبہ ، گفٹ اور  مالک بناکر دینے کی صراحت کردی تھی تو پھر ان زیورات  کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  زیورات دیتے وقت کسی قسم کی صراحت نہیں  کی تھی   تو پھر لڑکے کے خاندان کے عرف کا اعتبار ہوگا، اگر ان کا عرف و رواج بطورِ ملک دینے کا ہے  یا ان کا کوئی رواج نہیں ہے تو ان دونوں صورتوں میں زیورات کی مالک لڑکی ہوگی، اور اگر  بطورِ عاریت دینے کا رواج ہے تو پھر سسرال والے ہی مالک ہوں گے۔

3:یہی حکم لڑکے کو سسرال کی طرف سے دی گئی  اشیاء کے بارے میں ہے کہ عام  استعمال کی جو چیزیں  مثلا کپڑے ،جوتے ،گھڑی وغیرہ لڑکے کو دی گئی تھیں ،وہ سب لڑکے ہی کی ملکیت ہیں ، بعد میں سسرال والے ان کی واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے ،لہذا صورتِ مسئولہ میں اگر واقعۃ  گاڑی سائل ہی کو اس کے سسرال والوں نےتحفۃ ً  دی تھی ،لڑکی کو نہیں دی تھی تو   سائل اس کا مالک بن چکا ہے ،لہذا بعد میں سسرال والےاس کی  واپسی کا مطالبہ نہیں کرسکتے ۔

4:واضح رہے کہ مطلقہ اپنی عدت شوہر کے گھر  پر ہی  گزارے گی ،اور شوہر پر بھی لازم ہے کہ دورانِ عدت اسے اپنے گھر میں رہنے دے ، البتہ اگر مطلقہ شوہر کی اجازت سے اپنے میکے میں عدت گزارے تو شوہر پر عدت کے زمانے کا نان نفقہ لازم ہوگا،اور اگر بغیر کسی  اجازت کے اپنے میکے میں عدت گزارے تو اس صورت میں نان نفقہ شوہر پر لازم نہ ہوگا، تاہم اگر طلاقِ بائن دی  ہو اور شوہر کے گھر عدت گزار رہی ہو  تو میاں بیوی کا تنہا ایک ساتھ  رہنا درست نہیں ہوگا، بلکہ کوئی بڑی عمر کی خاتون ان دونوں کے علاوہ گھر میں ہو  یا دونوں الگ الگ کمرے میں رہیں،اور عدت کے زمانے کا خرچہ شوہر کے ذمہ لازم ہے ،البتہ اس کی کوئی خاص مقدار متعین نہیں، بلکہ اس میں مرد اور عورت کی حالت کا اعتبار ہے۔ جتنا اس میں وسعت ہو اور عورت کی ضرورت پوری ہوسکے اسی کے بقد ر نان نفقہ واجب ہے۔ لہٰذا اپنی وسعت  اور عورت کے ضروری اخراجات کو مدنظر رکھتے ہوئے باہمی رضامندی سے خرچہ متعین کرلیا جائے۔

مطلقہ اگر حمل سے نہ ہو اور اسے ایام آتے ہوں تو عدت تین ماہواریاں گزرنے تک ہے۔ اگر حمل سے ہو تو بچہ جننے تک عدت ہوگی۔ 

بدائع الصنائع میں ہے:

"ومنها: هبة كل المهر قبل القبض عيناً كان أو ديناً، وبعده إذا كان عيناً."

(‌‌كتاب النكاح،فصل المهر،فصل بيان ما يسقط به كل المهر،295/2،ط:دار الكتب العلمية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(وصح حطها) لكله أو بعضه (عنه) قبل أو لا، ويرتد بالرد، كما في البحر."

(‌‌باب المهر ،مطلب في حط المهر والإبراء منه،113/3،ط:سعيد)

قرآنِ کریم میں ہے: 

{أَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَيْثُ سَكَنْتُمْ مِنْ وُّجْدِكُمْ وَلَا تُضَارُّوْهُنَّ لِتُضَيِّقُوْا عَلَيْهِنَّ  وَ اِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْهِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَهُنَّ .......... لِيُنْفِقْ ذُوْ سَعَةٍ مِّنْ سَعَتِه وَمَنْ قُدِرَ عَلَيْهِ رِزْقُه فَلْيُنْفِقْ مِمَّا آتَاهُ اللهُ لَا يُكَلِّفُ اللهُ نَفْسًا إِلَّا مَا آتَاهَا سَيَجْعَلُ اللهُ بَعْدَ عُسْرٍ يُّسْرًا} [الطلاق:6-7]

ترجمہ: تم ان (مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے موافق رہنے کا مکان دو جہاں تم رہتے ہو  اور ان کو تنگ کرنے کے لیے (اس کے بارے میں ) تکلیف مت پہنچاؤ اور اگر وہ (مطلقہ) عورتیں حمل والیاں ہوں تو حمل پیدا ہونے تک ان کو (کھانے پینے کا ) خرچ دو  ۔۔۔  (آگے بچہ کے نفقے کے بارے میں ارشاد ہے کہ ) وسعت والے کو اپنی وسعت کے موافق (بچہ پر) خرچ کرنا چاہیے اور جس کی آمدنی کم ہو اس کو چاہیے کہ اللہ نے جتنا اس کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، خدا تعالیٰ کسی شخص کو اس سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا جتنا اس کودیا ہے ۔ خدا تعالیٰ تنگی کے بعد جلدی فراغت بھی دے گا (گو بقدر ضرورت وحاجت روائی سہی) ۔
فائدہ:  یعنی عدت میں سکنی بھی مطلقہ کا واجب ہے ، البتہ طلاق بائن میں ایک مکان میں خلوت کے ساتھ دونوں کا رہنا جائز نہیں،  بلکہ حائل ہونا ضرور ہے۔

(ترجمہ و فائدہ از بیان القران)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وكما تستحق المعتدة نفقة العدة تستحق الكسوة كذا في فتاوى قاضي خان ويعتبر في هذه النفقة ما يكفيها وهو الوسط من الكفاية وهي غير مقدرة؛ لأن هذه النفقة نظير نفقة النكاح فيعتبر فيها ما يعتبر في نفقة النكاح".

 (كتاب الطلاق،الباب السابع عشر في النفقات،الفصل الثالث في نفقة المعتدة،558/1،ط:رشيدية)

فتاوی شامی میں ہے:

"(‌لا) ‌نفقة ‌لأحد ‌عشر: مرتدة، ومقبلة ابنه، ومعتدة موت ....... و (خارجة من بيته بغير حق) وهي الناشزة حتى تعود."

(كتاب الطلاق،باب النفقة،575/3،ط:سعيد)

وفيه أيضا:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضاً."

(  کتاب النکاح، باب المهر، مطلب في ما يرسله إلي الزوجة ، 3/ 153،ط: سعید)

وفيه أيضا:

"(ولا يصح الرجوع إلا بتراضيهما أو بحكم الحاكم).

(قوله ولا يصح إلخ) قال قاضي خان وهب ثوبا لرجل ثم اختلسه منه، فاستهلكه ضمن الواهب قيمة الثوب للموهوب له؛ لأن الرجوع في الهبة لا يكون إلا بقضاء أو رضا سائحاني."

(كتاب الهبة،باب الرجوع في الهبة،704/5،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144311100343

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں