بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

23 شوال 1445ھ 02 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہنگائی کے خوف سے کم بچے پیدا کرنا کیسا ہے؟


سوال

کثیر اولاد آج کے اس مہنگائی کے دور میں ہونا چاہیے یا ااپنی استطاعت کے مطابق بچے پیدا کرنے چاہئیں ۔شرعی حکم کیا ہے؟مثال کے طور پر اگر ایک شخص کی انکم اتنی ہے کہ اس میں وہ دو بچوں کی پرورش اچھی طرح کر سکتا ہے تو کیا ضروری ہے کہ وہ 4 یا 5 یا 6 یا اس سے بھی زیادہ بچے پیدا کرے.اگر ایک مزدور ہے اور روزانہ کی انکم اسکی 800 روپے ہے تو وہ کیسے گزارہ کرے گا کیسے بچوں کی پرورش کرے گا؟ اگر اسکے دس بچے ہیں ،تو اس کے لیے مشکل ہو جائے گا کہ وہ ان کے لیے مناسب خوراک اور زندگی کی بنیادی ضروریات کا بندوبست کرے. ان تمام حقائق کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔

جواب

   شریعت میں نکاح کے بہت سارے اغراض اور مقاصد ہیں،سب سے اہم مقصد     توالد ہے ،اور شریعت   کی  نظر میں  نسل انسانی کی زیادتی مطلوب   ہےاور کثرت اولاد  رسول اللہﷺ کے لیے  فخر کا سبب  بھی ہے ،اسی وجہ سے حدیث میں زیادہ بچہ جننے والی عورت سے نکاح  کرنے کی            تر غیب   دی گئی ہے،اور کثر ت اولاد ہونا  روزی میں کمی اور غربت میں زیادتی  کا باعث  نہیں ہے ،بلکہ  اس کے ذریعے سے روزی  اور معاش میں  برکت ہوتی ہے ، اور یہ بات مادیت کی زنجیروں میں جکڑے انسان کو مشکل سے سمجھ آتی ہے، لیکن حقیقت یہی ہے،لہذااس  خطرہ کی وجہ سے کہ بچے زیادہ ہوں گے  تو مہنگائی کے دور میں  ان کے معاش کا انتظام کیسے ہو گا ،     بچہ پیداہونے میں رکاوٹ ڈالنا ناجائزاور حرام ہے،اس لیے کہ اللہ تعالی نے         غربت کی خوف          سے اولاد کو قتل کرنے سے منع کیاہے،بلکہ  بچوں کے رزق کی ذمہ داری لینے کی خوشخبری بھی  سنائی ہے۔

قرآن کریم میں ہے :

  "وَلَا ‌تَقْتُلُوْا أَوْ لَادَكُمْ مِّنْ إِ مْلَاقٍ نَّحْنُ نَرْزُقُكُمْ وَإِيَّاهُمْ"(الانعام  ،آیۃ،151)

ترجمہ : اور اپنی اولاد کو افلاس  کے سبب قتل مت  کیا کرو۔ہم  تم کو اور ان کو رزق(مقدر) دیں گے۔             (بیان القرآن)

تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"ولا تقتلوا أولادكم من إملاق" وذلك أنهم كانوا يقتلون أولادهم كما سولت لهم الشياطين ذلك، فكانوا يئدون البنات خشية العار، وربما قتلوا بعض الذكور خشية الافتقار، ولهذا ورد في الصحيحين من حديث عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، أنه سأل رسول الله صلى الله عليه وسلم أي الذنب أعظم؟ قال «أن تجعل لله ندا وهو خلقك» قلت: ثم أي؟ قال «أن تقتل ولدك خشية أن يطعم معك» قلت: ثم أي؟ قال: «أن تزاني حليلةجارك»"

(الاسراء،66/5 ،ط ،دارالکتب العلمية)

معارف               القرآن میں ہے :

"مفتی شفیع صاحب ؒ   "و لا تقتلوا  اولاد کم  من  خشیۃ  املاق " کے تحت فرماتے ہیں،آیت مذکورہ میں حق تعالی نے ان کی جہالت  کو واضح کیاہے کہ رزق دینے والے تم کون ،یہ تو خالص اللہ تعالی کے قبضہ میں ہے تمہیں بھی تو وہی  رزق دیتا ہے ،جو تمہیں دیتا ہے  ان کو بھی  دیگا ،آگے فرماتے ہیں  قرآن کریم کے اس  ارشاد سے  اس معاملے پر  بھی  روشنی  پڑتی  ہے جس میں  آج کل دنیا گرفتار ہے  کہ کثرت آبادی کے خوف  سے منصوبہ  بندی کو رواج دی جاری ہے ،اس کی بنیاد اسی جاہلانہ فلسفہ پر ہے کہ رزق  کا ذمہ دار  اپنے  آپ کو سمجھ لیا گیاہے ، یہ معاملہ قتل  اولاد کی  بر ابر گناہ نہ سہی  مگر اس           کے    مذموم ہونے       میں      کو ئی شبہ  نہیں۔"

(474،5،ط                ادارۃ المعارف)

مرقاۃ المفاتیح میں ہے:

"وعن معقل بن يسار رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «تزوجوا الودود الولود، فإني مكاثر بكم الأمم

(وعن معقل بن يسار) أي: المزني، وهو ممن بايع تحت الشجرة (قال: «قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: تزوجوا الودود» ) التي تحب زوجها (الولود) أي: التي تكثر ولادتها، وقيد بهذين لأن الولود إذا لم تكن ودودا لم يرغب الزوج فيها، والودود إذا لم تكن ولودا لم يحصل المطلوب وهو تكثير الأمة بكثرة التوالد، ويعرف هذان الوصفان في الأبكار من أقاربهن، إذ الغالب سراية طباع الأقارب بعضهن إلى بعض، ويحتمل والله تعالى أعلم أن يكون معنى تزوجوا اثبتوا على زواجها وبقاء نكاحها إذا كانت موصوفة بهذين الوصفين. ( «فإني مكاثر بكم الأمم» ) أي: مفاخر بسببكم سائر الأمم لكثرة أتباعي۔"

(کتاب النکاح ،ج،5،ص،2047،رقم،3091،ط ،دار الفکر)

فتح القدیر میں ہے:

"وعن ابن عباس رضي الله عنهما: " تزوجوا فإن خير هذه الأمة أكثرها نساء " ومن تأمل ما يشتمل عليه النكاح من تهذيب الأخلاق وتوسعة الباطن بالتحمل في معاشرة أبناء النوع وتربية الولد والقيام بمصالح المسلم العاجز عن القيام بها والنفقة على الأقارب والمستضعفين وإعفاف الحرم ونفسه ودفع الفتنة عنه وعنهن ودفع التقتير عنهن بحبسهن لكفايتهن مئونة سبب الخروج ثم الاشتغال بتأديب نفسه وتأهيله للعبودية ولتكون هي أيضا سببا لتأهيل غيرها وأمرها بالصلاة، فإن هذه الفرائض كثيرة لم يكد يقف عن الجزم بأنه أفضل من التخلي، بخلاف ما إذا عارضه خوف الجور إذ الكلام ليس فيه بل في الاعتدال مع أداء الفرائضوالسنن،"

وایضا  فیہ:

"وعن معقل بن يسار قال «جاء رجل إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله إني أصبت امرأة ذات حسن وجمال وحسب ومنصب ومال إلا أنها لا تلد أفأتزوجها؟ فنهاه، ثم أتاه الثانية فقال له مثل ذلك، ثم أتاه الثالثة، فقال: ‌تزوجوا ‌الودود ‌الولود فإني مكاثر بكم الأمم» رواه أبو داود والنسائي والحاكم وصححه."

(کتاب النکاح 189،3،ط:دارلفکر)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144508100906

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں