ایک تنخواہ دار ہونے کے ناطے میرا معمول ہے کہ میں ماہانہ اخراجات اپنی ڈائری میں نوٹ کرتا رہتا ہوں، اور پھر مہینے کے آخر میں اس کو جمع کرتا ہوں، ڈائری میں یہ بھی نوٹ کرتا ہوں کہ میں نے کتنے روپے بطور صدقہ خرچ کیے، چاہے دس روپے ہی کیوں نہ ہوں، اور یہ میں اخراجات سے الگ نوٹ کرتا ہوں، اب میرے کچھ سوالات ہیں۔
1) اپنے اخراجات نوٹ کرنے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟
2) صدقہ دے کر ڈائری میں نوٹ کرنا صحیح ہے؟
3) کبھی کبھی میں اپنی بیوی، بچوں اور گھر والوں کے لیے کوئی چیز لیتا ہوں تو صدقہ کی نیت کر لیتا ہوں، تو کیا وہ پیسے میں ڈائری میں بطورِ صدقہ نوٹ کر سکتا ہوں؟ براہ کرم اس حوالے سے راہ نمائی فرمائیں۔
۱: مہینے بھر کے اخراجات کا حساب اس لیے ڈائری میں لکھ کر محفوظ کرنا کہ کہیں مہینے کے اختتام سے پہلے زیادہ پیسے خرچ ہوکر پریشانی کا سبب نہ بن جائے ٗ نا صرف جائز ہے، بلکہ مستحسن امر ہے؛ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں سورۂ فرقان کے اندر اپنے بندوں کی صفات میں اس کا بھی تذکرہ فرمایا ہے کہ ’’اللہ کے نیک بندے جب خرچ کرتے ہیں تو نہ ہی بہت کھلا خرچ کرتے ہیں، اور نہ ہی بالکل روک کر، بلکہ اعتدال کے ساتھ خرچہ کرتے ہیں‘‘، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا بھی ارشادِ مبارک ہے کہ ’’خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنا آدھی معیشت ہے‘‘۔
۲: اگر صدقہ دے کر لکھنے سے ریاء کاری مقصود نہ ہو، بلکہ کفایت شعاری کی غرض سے صرف خرچ شدہ رقم اور اس کی مد لکھنا ہو ٗ تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔
۳: بیوی بچوں اور گھر والوں پر خرچ کرنا بھی صدقہ ہے، لہذا اسے بھی صدقہ کے نام سے لکھ کر محفوظ کرنا جائز تو ہے، البتہ بہتر یہ ہے کہ اس کو بیوی اور بچوں کی خاطر لائے گئے ’’ہدیہ‘‘ کے نام سے محفوظ کیا جائے، صدقہ کا ثواب ویسے ہی مل جائے گا۔
مسند أحمدمیں ہے:
"عن عبد الله بن مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "ما عال من اقتصد."
(مسند المكثرين من الصحابة، مسند عبد الله بن مسعود، ج: ٧، ص: ٣٠٢، ط: مؤسسة الرسالة)
لمعات التنقيحمیں ہے:
"وعن ابن عمر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "الاقتصاد في النفقة نصف المعيشة إلخ.
قوله: (الاقتصاد في النفقة نصف المعيشة) لأنه لا بد في التعيش من دخل وخرج، وبناء الخرج على الاقتصاد؛ لأن في التبذير والتقتير إخلالا بالمصالح، فيكون الاقتصاد نصف معيشة، وقال الطيبي : لأن كلا من طرفي التبذير والتقتير ينغص كل العيش، فالتوسط نصف العيش."
(كتاب الآداب، باب الحذر والتأني في الأمور، ج: ٨، ص: ٣١٩، ط: دار النوادر)
شرح النووي على مسلممیں ہے:
"قوله صلى الله عليه وسلم (ورجل تصدق بصدقة فأخفاها حتى لا تعلم يمينه ما تنفق شماله) . . . قال العلماء وهذا في صدقة التطوع فالسر فيها أفضل لأنه أقرب إلى الإخلاص وأبعد من الرياء وأما الزكاة الواجبة فإعلانها أفضل وهكذا حكم الصلاة فإعلان فرائضها أفضل وإسرار نوافلها أفضل لقوله صلى الله عليه وسلم أفضل الصلاة صلاة المرء في بيته إلا المكتوبة قال العلماء وذكر اليمين والشمال مبالغة في الإخفاء والاستتار بالصدقة وضرب المثل بهما لقرب اليمين من الشمال وملازمتها لها ومعناه لو قدرت الشمال رجلا متيقظا لما علم صدقة اليمين لمبالغته في الإخفاء."
(کتاب الزکاۃ، باب فضل إخفاء الصدقة، ج: ٧، ص: ١٢٢، ط: دار إحياء التراث)
مرقاة المفاتيحمیں ہے:
"وعن أبي مسعود قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا أنفق المسلم نفقة على أهله وهو يحتسبها كانت له صدقة. متفق عليه.
(إذا أنفق المسلم نفقة على أهله) أي الزوجة والأقارب (وهو يحتسبها) أي يعتدها مما يدخر عند الله أو يطلب الحسبة وهي الثواب (كانت له) أي نفقته (صدقة) أي عظيمة أو مقبولة أو نوعا من الصدقة."
(کتاب الزكاة، باب أفضل الصدقة، الفصل الأول، ج: ٤، ص: ١٣٥١، ط: دار الفكر، بيروت)
شرح البخاري لابن بطالمیں ہے:
"فیه : معن بن يزيد، بايعت النبى، صلى الله عليه وسلم ، أنا وأبى وجدى وخطب على فأنكحنى، وخاصمت إليه، وكان أبى يزيد أخرج دنانير يتصدق بها، فوضعها عند رجل فى المسجد، فجئت فأخذتها، فأتيته بها، فقال: والله ما إياك أردت، فخاصمته إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال: (لك ما نويت يا يزيد، ولك ما أخذت يا معن) . اتفق العلماء على أنه لا يجوز دفع الزكاة إلى الابن، ولا إلى الأب، إذا كانا ممن تلزم المزكى نفقتهما لأنها وقاية لماله، ولم يختلفوا أنه يجوز له أن يعطيهما ما شاء من صدقة تطوع أو غيرها. والمراد بهذا الحديث عندهم صدقة التطوع."
(كتاب الزكاة، باب إذا تصدق على ابنه وهو لا يشعر، ج: ٣، ص: ٤٢٥، ط: مكتبة الرشد)
حاشية ابن عابدينمیں ہے:
"(ولا) إلى (من بينهما ولاد) ولو مملوكا لفقير (أو) بينهما (زوجية).
(قوله: وإلى من بينهما ولاد) أي بينه وبين المدفوع إليه؛ لأن منافع الأملاك بينهم متصلة فلا يتحقق التمليك على الكمال . . . وكذا كل صدقة واجبة كالفطرة والنذر والكفارات، وأما التطوع فيجوز بل هو أولى كما في البدائع."
(کتاب الزکاۃ، باب مصرف الزكاة والعشر، ج: ٢، ص: ٣٤٦، ط: سعيد)
فقط والله تعالى أعلم
فتوی نمبر : 144605102179
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن