میری اور میرے شوہر کی لڑائی ہوئی اس لڑائی کے دوران میں باتھ روم گئی اور وہاں جا کر سوچا کے اگر ابھی ہماری لڑائیاں ہو رہی ہیں اور اگے جا کر ہم دونوں کو محسوس ہو کہ ہم ایک دوسرے کے لیےصحیح نہیں ہیں تو میں ابھی الگ ہو جاتی ہوں (لیکن میں اپنے شوہر کو بہت پسند کرتی ہوں اگر لڑائی نہیں ہوتی تو میں کبھی بھی ان کو چھوڑنے کا یا طلاق لینے کا نہیں سوچتی) یہ سوچ آنے کے بعد لڑائی جاری تھی اور میں نے غصے میں آ کر قرآن پر ہاتھ رکھ کر یہ کہا کہ میں طلاق نہیں چاہتی اور میرے دل میں بھی یہی تھا کہ میں طلاق نہیں چاہتی نہ الگ ہونا چاہتی ہو، اب لڑائی ختم ہونے کے باوجود بھی میرے دل میں یہی ہے کہ میں طلاق نہیں چاہتی نہ ہی میں علیحدگی چاہتی ہوں تو کیا میں نےقرآن کی سچی قسم کھائی ہے یا جھوٹی قسم، اگر میں نے سچی قسم کھائی ہے اور اس کے باوجود اگر کوئی کفارہ ہے تو میری رہنمائی فرمائیں؟ میں نے توبہ بھی کر لی اوراللہ سے معافی بھی مانگ لی ہے!
صورتِ مسئولہ میں سائلہ کے صرف قرآنِ مجید پر ہاتھ رکھنے کی وجہ سے قسم منعقد ہی نہیں ہوئی تھی لہذا اس کے خلاف کرنے سے بھی سائلہ پر کسی قسم کا کفارہ لازم نہیں ہے۔
فتاوی شامی میں ہے:
"(لا) يقسم (بغير الله تعالى كالنبي والقرآن والكعبة) قال الكمال: ولا يخفى أن الحلف بالقرآن الآن متعارف فيكون يمينا."
(كتاب الايمان، ج:3، ص:712، ط:ایچ ایم سعید)
فتاوی ہندیہ میں ہے:
'قال محمدرحمه الله تعالى في الأصل لو قال: والقرآن لا يكون يمينا ذكره مطلقا، والمعنى فيه، وهو أن الحلف به ليس بمتعارف.'
(کتاب الأیمان، الباب الثاني، ج:2، ص:53، ط:دارالفکر)
فقط واللہ اعلم
فتوی نمبر : 144509101705
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن