بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

7 شعبان 1446ھ 06 فروری 2025 ء

دارالافتاء

 

محض نیت و ارادہ سے پلاٹ وقف شمار نہ ہوگا


سوال

ایک شخص نے اپنی زرعی زمین کی پلاٹنگ کی ،اس پلاٹنگ میں اس نے غیر قانونی سڑک کی زمین کو بھی شامل کرلیا ۔اب ایک شخص نے اس زمین میں ایک پلاٹ مسجد بنانے کے ارادے سے اپنی ذاتی رقم سے خریدا،مگر اس شخص نے علم نہ ہونے کی وجہ سے وہ غیر قانونی پلاٹ خرید  لیا ،اب اس خریدار نے جگہ خریدنے کے بعد اس کی چار دیواری کے لیے چندہ کیا اور چندہ کی رقم سے اس کی چار دیواری بھی کرادی ،مگر اب اسے اس جگہ کے غیر قانونی ہونے کا علم ہوا ۔

اب اس کے لیے یہ جگہ فروخت کر کے کسی اور جگہ مسجد کے لیے جگہ لینا جائز ہے ؟ واضح رہے کہ پلاٹ اس شخص نے ذاتی پیسوں سے خریدا تھا مسجد بنانے کا ارادہ تھا مگر وقف کے الفاظ ادا نہیں کیے تھے ،البتہ چار دیواری کے لیے چندہ چار دیواری کے نام پر ہی کیا گیا تھا۔ 

جواب

صورتِ مسئولہ میں اگر مذکورہ شخص نے یہ پلاٹ اس نیت سے خریدا تھا کہ اس پر مسجد تعمیر کروں گا،اور پھر اجتماعی (چندہ کی )رقم  سے اس کی چار دیواری قائم کی ہے ، لیکن زبان سے مذکورہ پلاٹ کو مسجد کے لیے وقف نہیں کیا، بلکہ محض نیت اور ارادہ تھا اور اب اس پلاٹ کے غیرقانونی ہونے کا علم ہوا ہےتو اس جگہ کو فروخت کرکے مسجد کے لیے دوسری جگہ خریدنا، جائز ہے ۔ 

فتاوی شامی میں ہے:

"(اشترى المتولي بمال الوقف دارًا) للوقف (لاتلحق بالمنازل الموقوفة ويجوز بيعها في الأصح)؛ لأن للزومه كلامًا كثيرًا و لم يوجد هاهنا."

وفي الرد:

"عن القنية إنما يجوز الشراء بإذن القاضي لأنه لايستفاد الشراء من مجرد تفويض القوامة إليه فلو استدان في ثمنه وقع الشراء له. اهـ.

قلت: لكن في التتارخانية قال الفقيه: ينبغي أن يكون ذلك بأمر الحاكم احتياطًا في موضع الخلاف.

(قوله: ويجوز بيعها في الأصح) في البزازية بعد ذكر ما تقدم وذكر أبو الليث في الاستحسان يصير وقفا وهذا صريح في أنه المختار. اهـ. رملي.

قلت: وفي التتارخانية المختار أنه يجوز بيعها إن احتاجوا إليه."

(کتاب الوقف، مطلب اشترى بمال الوقف دارا للوقف يجوز بيعها، ج:4، ص:416، ط:سعید)

وفیہ ایضاً :

"(وركنه ‌الألفاظ ‌الخاصة ك) أرضي هذه (صدقة موقوفة مؤبدة على المساكين ونحوه) من الألفاظ كموقوفة لله تعالى أو على وجه الخير أو البر واكتفى أبو يوسف بلفظ موقوفة فقط قال الشهيد ونحن نفتي به للعرف."

(كتاب الوقف، ج: 4، ص: 40 3، ط: دار الفكر بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"فأما ركنه فالألفاظ الخاصة الدالة عليه كذا في البحر الرائق."

(کتاب الوقف، الباب الاول، ج: 2، ص: 352، ط: دار الفکربیروت)

فقط والله اعلم


فتوی نمبر : 144602100888

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں