بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

8 ذو القعدة 1445ھ 17 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

محض نام پر خریدنے سے ملکیت ثابت نہیں ہوتی، بلکہ قبضہ و تصرف کے ساتھ حوالہ کرنا بھی ضروری ہے


سوال

زید کی اس کے وطن میں کچھ زمینیں ہیں ،جن میں سے بعض زید کے نام پر اور بعض اس کے بیٹوں کے نام پر ہیں ،جب زید نے زمینیں خریدنے کا سلسلہ شروع کیا تو شروع میں اپنے نام پر خریدیں ،بعد میں اپنی طیب ِخاطر سے اپنے لڑکوں کے نام پر خریدیں ،زید نے اپنے ایک شناسا کو اس کی یہ وجہ بتلائی کہ کل کو یہ زمینیں لڑکوں کی ہی ہو جائیں گی اس لیے ان کے نام سے خرید رہا ہوں ، ان زمینوں کی آمدنی زید کے پاس آتی تھیں ،پھر زید  کچھ حصہ اپنےپاس رکھتے تھے اور باقی آمدنی اپنے بیٹوں کو بطورِ تملیک کے دیتے تھے ،زید کے انتقال کے بعد یہ زمینیں شرعی حصص کے اعتبار سے تقسیم کی جارہی ہیں تو رہنمائی فرمائیں ،ورثاء میں دو بیٹے اور ایک بیٹی ہے اور کوئی وارث نہیں ہے،نیز یہ بھی واضح فرمائیں کہ زید نے جو زمینیں   اپنے بیٹوں کے نام کرائی تھیں ،جب کہ ان کے حوالہ بھی نہیں کی تھیں  اور نہ کسی قسم کا معاملہ کیا تھاتو اس صورت میں یہ زمینیں زید کے لڑکوں کی مانی جائیں گی یا نہیں؟

جواب

1)واضح رہے کوئی  بھی چیز  محض کسی کے نام کرنے سے اس کی ملکیت میں نہیں آتی ،جب تک کہ وہ چیز مکمل قبضہ و تصرف کے ساتھ اس کے قبضہ میں نہ دے دی  جائے ۔لہذا صورت ِمسئولہ میں چوں کہ زید نے  یہ مذکورہ زمینیں  اپنے لڑکوں کے محض نام کی یا خریدی تھیں ،قبضہ و تصرف نہیں دیا تھا ،بلکہ   آخر تک کرایہ زید کے پاس ہی آتا تھا اور پھر زید اس کو اپنے لڑکوں میں تقسیم کرتا تھا تو اس صورت میں ان زمینوں کا مالک زید ہی ہے ،اور اب  یہ زمینیں  زید کے ترکہ میں شمار ہو کر تمام ورثاء میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گی۔

جس کا طریقہ کار  یہ  ہے کہ مرحوم کے  حقوقِ  متقدمہ     یعنی تجہیز و تکفین کا  خرچہ نکالنے کے بعد اگر مرحوم کے ذمہ  کوئی قرض ہو تو  اسے ادا کرنے کے بعد اگر مرحوم نے کوئی جائز وصیت کی ہو تو باقی مال کے ایک تہائی حصہ میں اسے نافذکرنے کے بعد باقی کل ترکہ منقولہ وغیر منقولہ کو 5 حصوں میں تقسیم کر کے 2 حصے ہر ایک بیٹے کو اور ایک حصہ بیٹی کو ملے گا ۔

صورتِ تقسیم یہ ہے:

میت  والد 5

بیٹابیٹابیٹی
221

یعنی 100 فیصد میں سے ہر ایک بیٹے کو 40 فیصد اور بیٹی کو 20 فیصد ملے گا ۔

فتاوی شامی میں ہے:

"بخلاف جعلته باسمك فإنه ليس بهبة"

)کتاب الہبہ ج:5 ،ص:689،ط:سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144304100943

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں