میں ایک سچا پکا مسلمان ہوں، مگر نہ جانے کیوں میرے ذہن میں ملحدانہ خیالات آتے رہتے ہیں اور عجیب وسوسے آتے رہتے ہیں، میں نے پانچوں وقت کی نماز بھی شروع کردی ہے، مگر نماز کے دوران بھی برے خیالات آتے رہتے ہیں، میں ہمیشہ اُن کو جھڑکنے کی کوشش کرتا ہوں، مگر پھر بھی پیچھا نہیں چھوڑتے، مگر جب بھی آتے ہیں میں آمنت باللہ ورسولہ پڑھتا ہوں۔
اس طرح کے ملحدانہ خیالات سے میرا ایمان تو فاسد نہیں ہو جائے گا؟ حالاں کہ میں ہر وقت استغفار کرتا رہتا ہوں، ان خیالات کو برا جانتا ہوں اور ہر وقت رسول اللہ پر درود پڑھتا رہتا ہوں، ان وسوسوں کے ڈر سے مجھے یہ فائدہ ضرور ہوا ہے کہ میں نماز کو باقاعدگی سے پڑھ رہا ہوں، قرآن کی تلاوت اور ذکر و اذکار بھی جاری ہیں اور میں نے اپنا اخلاق اور رویہ بالکل صحیح کرلیا ہے۔
غیر اختیاری طور پر آنے والے برے خیالات کو برا سمجھنا ایمان کی علامت ہے، چناں چہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں سے کچھ لوگ نبی ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے کہ ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا، آپ ﷺ نے فرمایا کیا واقعی تم اسی طرح پاتے ہو؟ (یعنی ان خیالات کو برا سمجھتے ہو؟) صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم نے عرض کیا جی ہاں! آپ ﷺ نے فرمایا: یہ تو صریح ایمان ہے۔
"عن أبي هريرة؛ قال: جاء ناس من أصحاب النبي صلى الله عليه وسلم فسألوه: إنا نجد في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به. قال: وقد وجدتموه؟ قالوا: نعم. قال ذاك صريح الإيمان".
(كتاب الإيمان، باب بيان الوسوسة في الإيمان وما يقوله من وجدها، ١/ ١١٩، الرقم: ١٣٢، ط: دار إحياء التراث)
ملاعلی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : صحابہ کے اس جملہ "ہم اپنے دلوں میں کچھ خیالات ایسے پاتے ہیں کہ ہم میں سے کوئی ان کو بیان نہیں کر سکتا" کا مطلب یہ ہے کہ ”ہم اپنے دلوں میں بری چیزیں پاتے ہیں، مثلاً: اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ اور وہ کیسا ہے؟ اور کس چیز سے بنا ہے؟ اور اس طرح کی اور چیزیں کہ جن کا بیان کرنا بھی مشکل ہے، اس لیے کہ ہمیں معلوم ہے کہ یہ قبیح باتیں ہیں اور ان میں سے کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ ہم اس پر اعتقاد رکھیں، بلکہ ہم جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ قدیم ہے، ازل سے ہے،ہر چیز کا خالق ہے، مخلوق نہیں ہے، تو ایسے خیالات جو ہمارے دل میں آتے ہیں ان کا کیا حکم ہے؟ تو آپ ﷺ نے یہ جواب دیا کہ یہ تو صریح ایمان ہے؛ اس لیے کہ تم اس وساوس کو دل میں پانے کے بعد جھڑک دیتے ہو، اور اس کو برا سمجھتے ہو،تو یہ تمہارے ایمان کی علامت ہے۔
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:
"(في أنفسنا ما يتعاظم أحدنا أن يتكلم به) أي: نجد في قلوبنا أشياء قبيحة نحو: من خلق الله؟ وكيف هو؟ ومن أي شيء؟ وما أشبه ذلك مما يتعاظم النطق به لعلمنا أنه قبيح لايليق شيء منها أن نعتقده، ونعلم أنه قديم، خالق الأشياء، غير مخلوق، فما حكم جريان ذلك في خواطرنا؟ ... (صريح الإيمان) أي: خالصه يعني أنه أمارته الدالة صريحاً على رسوخه في قلوبكم، وخلوصها من التشبيه، والتعطيل؛ لأن الكافر يصر على ما في قلبه من تشبيه الله سبحانه بالمخلوقات، ويعتقده حسنا، ومن استقبحها، وتعاظمها لعلمه بقبحها، وأنها لاتليق به تعالى كان مؤمناً حقاً، وموقناً صدقاً فلا تزعزعه شبهة، وإن قويت، ولا تحل عقد قلبه ريبة، وإن موهت، ولأن من كان إيمانه مشوباً يقبل الوسوسة، ولايردها".
(كتاب الإيمان، باب في الوسوسة، ١/ ١٣٦، ط: دارالفكر)
لہذا ان خیالات اور وسوسوں سے پریشان نہ ہوں ، اور ان کا علاج یہ ہے کہ ان کی طرف بالکل دھیان نہ دیا جائے، بعض علماء نے وساوس میں مبتلا اشخاص کی تسلی و تسکین کے لیے کہا ہے کہ جس طرح چور اُس گھر میں جاتا ہے جہاں کچھ مال ومتاع ہوتا ہے، اسی طرح جس دل میں ایمان ہوتا ہے شیطان وہاں آکر وساوس ڈالتا ہے۔
"وقيل: المعنى أن الوسوسة أمارة الإيمان؛ لأن اللص لايدخل البيت الخالي".
(كتاب الإيمان، باب في الوسوسة، ١/ ١٣٧، ط: دارالفكر)
اس لیے ان وساوس کو دل میں جگہ نہ دی جائے، ان کے مقتضی پر عمل، زبان سے تلفظ یا لوگوں کے سامنے ان کا اظہار نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کا خیال جھڑک کر ذکر اللہ کی کثرت کا اہتمام کرنا چاہیے۔
خود نبی کریم ﷺ نے اس کا علاج بتایا ہے، چناں چہ ایک حدیث میں ہے:
"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يأتي الشيطان أحدكم فيقول: من خلق كذا؟ من خلق كذا؟ حتى يقول: من خلق ربك؟ فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته".
(كتاب الإيمان، الفصل الأول، باب في الوسوسة، ١/ ٢٦، الرقم: ٦٥، ط: المكتب الإسلامي)
ترجمہ: "حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ شیطان تم میں سے کسی کے پاس آتا ہے تو کہتا ہے کہ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ اس طرح کس نے پیدا کیا؟ یہاں تک کہ وہ کہتا ہے کہ تیرے رب کو کس نے پیدا کیا؟ تو جب وہ یہاں تک پہنچے تو اللہ سے پناہ مانگو اور اس وسوسہ سے اپنے آپ کو روک لو"۔
ایک اورحدیث میں ہے:
"وعن أبي هريرة رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لا يزال الناس يتساءلون حتى يقال هذا خلق الله الخلق فمن خلق الله؟ فمن وجد من ذلك شيئا فليقل: آمنت بالله ورسله".
(كتاب الإيمان، الفصل الأول، باب في الوسوسة، ١/ ٢٦، الرقم: ٦٦، ط: المكتب الإسلامي)
" حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ لوگ ہمیشہ ایک دوسرے سے پوچھتے رہیں گے یہاں تک کہ یہ کہا جائے گا کہ مخلوق کو اللہ نے پیدا کیا؟ تو اللہ کو کس نے پیدا کیا؟ تو جو آدمی اس طرح کا کوئی وسوسہ اپنے دل میں پائے تو وہ کہے میں اللہ پر ایمان لایا، ایک روایت میں یہ اضافہ ہے، اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لایا"۔
لہٰذا ان وسوسوں کے علاج کے لیے مذکورہ نسخہ نبوی ﷺ پر عمل کیا جائے، اور ساتھ ساتھ یہ اعمال کریں:
(۱) أعُوذُ بِالله اٰمَنْتُ بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِه کا کثرت سے ورد کرے۔ (۲) هُوَ الْاَوَّلُ وَالْاٰخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيْم (۳) نیز رَّبِّ أَعُوْذُبِكَ مِنْ هَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ وَ أَعُوْذُ بِكَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ کا کثرت سے ورد کرنا بھی ہر طرح کے شیطانی شکوک ووساوس کے دور کرنے میں مفید ہے۔
الفتاویٰ الفقہیہ الکبریٰ للہیتمی میں ہے:
" (وسئل) - نفع الله به - عن داء الوسوسة هل له دواء؟
(فأجاب) بقوله: له دواء نافع وهو الإعراض عنها جملة كافية. وإن كان في النفس من التردد ما كان - فإنه متى لم يلتفت لذلك لم يثبت بل يذهب بعد زمن قليل كما جرب ذلك الموفقون، وأما من أصغى إليها وعمل بقضيتها فإنها لا تزال تزداد به حتى تخرجه إلى حيز المجانين بل وأقبح منهم، كما شاهدناه في كثيرين ممن ابتلوا بها وأصغوا إليها وإلى شيطانها الذي جاء التنبيه عليه منه - صلى الله عليه وسلم - بقوله: «اتقوا وسواس الماء الذي يقال له الولهان» أي: لما فيه من شدة اللهو والمبالغة فيه كما بينت ذلك وما يتعلق به في شرح مشكاة الأنوار، وجاء في الصحيحين ما يؤيد ما ذكرته وهو أن من ابتلي بالوسوسة فليعتقد بالله ولينته. فتأمل هذا الدواء النافع الذي علمه من لا ينطق عن الهوى لأمته. واعلم أن من حرمه فقد حرم الخير كله؛ لأن الوسوسة من الشيطان اتفاقا، واللعين لا غاية لمراده إلا إيقاع المؤمن في وهدة الضلال والحيرة ونكد العيش وظلمة النفس وضجرها إلى أن يخرجه من الإسلام. وهو لا يشعر أن الشيطان لكم عدو فاتخذوه عدوا. وجاء في طريق آخر فيمن ابتلي بالوسوسة فليقل: آمنت بالله وبرسله. ولا شك أن من استحضر طرائق رسل الله سيما نبينا - صلى الله عليه وسلم - وجد طريقته وشريعته سهلة واضحة بيضاء بينة سهلة لا حرج فيها وما جعل عليكم في الدين من حرج، ومن تأمل ذلك وآمن به حق إيمانه ذهب عنه داء الوسوسة والإصغاء إلى شيطانها. وفي كتاب ابن السني من طريق عائشة: - رضي الله عنها - «من بلي بهذا الوسواس فليقل: آمنا بالله وبرسله ثلاثا، فإن ذلك يذهبه عنه»".
( كتاب الصلاة، باب صفة الصلاة، ١ / ١٤٩، ط: المكتبة الإسلامية)
منتقیٰ الاذکار میں ہے:
"ما يقول إذا بلي بالوسوسة: يقول: أعوذ بالله، آمنت بالله ورسله. قال النبي صلى الله عليه وسلم: « … فإذا بلغه فليستعذ بالله ولينته» ، وقال عليه الصلاة والسلام: « … فمن وجد من ذلك شيئا، فليقل: آمنت بالله ورسله»"
(الفصل الثالث في أذكار مشروعة في أحوال ومناسبات، ما يقول إذا بلي بالوسوسة، ص: ٤٥، ط: دار الألوكة للنشر)
فقط والله أعلم
فتوی نمبر : 144604101570
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن