بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہراوردیگرہدایامیں رجوع کاحکم


سوال

یکم جنوری 2023 کومیرانکاح ایک لاکھ حقِ مہرکےعوض ہوا،شادی والی رات میرےشوہرنےمجھےسونےکاسیٹ دیا،اورکہاکہ:یہ آپ کامہرہے،اورسونےکاسیٹ میں نےلےلیا،(جوکہ ابھی اس نےواپس لےلیاہے) اورمیری ساس نےشادی والےدن یہ بات واضح کی تھی ،ایک لاکھ مہرسونےکےسیٹ کی صورت میں دےرہےہیں،اب وہ لوگ کہہ رہےہیں کہ:ایک لاکھ روپے نقدی آپ کومہرکےطورپردیں گے،اوراس ایک لاکھ میں سےشادی کےموقع پردلہن پرجوخرچہ ہواہے،و ہ اس ایک لاکھ میں سےکاٹ  لیےجائیں گے،توکیاایساکرناشرعاً جائزہے؟ نیزچارمہینوں میں ساس اورشوہرنےمیرےاوپرجوخرچہ  کیا،اوررمضان میں میرےلیےکپڑےبنائے،اوراسی طرح منہ دکھائی کے30000 روپےجوکہ میں نےشوہرکےکہنےپر،اپنی خراجات میں خرچ کیے،کیوں کہ ایک مہینےسےوہ مجھے خرچہ نہیں دےرہےتھے،وہ تمام خرچہ اوریہ 30000 روپے، اب میرےشوہر،اورمیری ساس ،  مجھ سےواپس مانگ رہےہیں،کیوں کہ میراشوہراب مجھےطلاق خودسےدیناچاہ رہاہے،میں نےاسے تمام حقوق دےدیئے،اوران کےساتھ رہنےکی پوری کوشش کی ،لیکن وہ طلاق پردینےپرتلےہوئےہیں ،لیکن طلاق  سےپہلےوہ مجھ سےیہ مطالبات کررہےہیں ،توکیاان کےیہ مطالبات شرعاً  درست ہے؟

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہرنےبیوی  کوسونےکاجوسیٹ ایک لاکھ مہرکےعوض  دیاتھا،اگرچہ اس کی قیمت ایک لاکھ سے زیادہ ہو،وہ بیوی کاحقِ مہرہوچکاہے،اوراب شوہرکوبغیربیوی کی رضامندی کےاس مہرکو تبدیل کرنا،یاواپس لینادرست نہیں،اورنہ ہی منہ دکھائی کےوقت شوہرنےجورقم دی تھی، واپس لینےکااختیارہے،بلکہ وہ بیوی کی ملکیت ہوگئی ہے،اورنہ ہی شوہرکےلیےشادی وغیرہ کےاخراجات کی رقم ،بیوی سےاس کےمہرمیں سےکاٹنادرست ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"أما العوارض المانعة من الرجوع فأنواع (منها) هلاك الموهوب ... (ومنها) خروج الموهوب عن ملك الموهوب له ... (ومنها) موت الواهب، . . (ومنها) الزيادة في الموهوب زيادة متصلة . . . (ومنها) أن يتغير الموهوب .. (ومنها الزوجية) . . . (ومنها القرابة المحرمية)."

(كتاب الهبة، الباب الخامس في الرجوع في الهبة وفيما يمنع عن الرجوع ما لا يمنع، ج: 4، ص: 385، ط: ماجدية)

:العقودالدریہ میں ہے

".المتبرع ‌لا يرجع بما تبرع به على غيره كما لو قضى دين غيره بغير أمره. اهـ"

(کتاب المداینات،226/2،ط:دارالمعرفہ)

الدرالمختارمیں ہے:

"(وما فرض) بتراضيهما أو بفرض قاض مهر المثل (بعد العقد) الخالي عن المهر (أو زيد) على ما سمي فإنها تلزمه بشرط قبولها في المجلس أو قبول ولي الصغيرة ومعرفة قدرها وبقاء الزوجية على الظاهر نهر."

(كتاب النكاح،باب المهر،١١١/٣،ط:سعيد)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144410100934

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں