بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر سے متعلق سوال


سوال

عنوان ہے (مہرمیں دی گئی سودی رقم 144209200707 کاحکم)

مذکورہ بالا فتوی  میں آپ نے فرمایا تھا کہ مہر میں سودی (حرام کمائی)مقررنہیں کی ہواورپھرسودی رقم سے ادائیگی کی ہوتواس میں بیوی کے لیے وہ مہرحلال ہوگا ، اب پوچھنا یہ ہے اگر ایک بندے کی آمدنی ہی حرام ہو ، اگرچہ وہ مہرمقرر کرتے ہوئےیہ نہیں کہتا کہ سودی رقم سے دوں گا، وہ یہ کہتاہے کہ مہردوں گا، لیکن اس کی آمدنی کا حرام ہوناہی اس بات کی تعیین ہے کہ مہر حرام کمائی سے ہوگا، کیوں کہ اس کے پاس اور آمدنی نہیں اگرچہ وہ زبان سے نہیں بولتا۔

جواب

واضح رہے کہ آپ کے سوال کا جواب مذکورہ فتوی میں ہی موجود ہے کہ مہر متعین کرتے وقت اگر شوہر نے مطلق کہہ دیا ہو کہ "مہر دوں گا "، اور اس کی وضاحت نہ کی ہو کہ کس کمائی سے دوں گا ، تو ایسی صورت میں اگر شوہر نے سودی رقم سے ادائیگی کردی تو بیوی کے لیے مہر لینا جائز ہے ،  رہا شوہر کے لیے حرام کمائی سے مہر ادا کرنا، تو وہ  گناہ ہے۔

باقی دینار ،  درہم  وغیرہ کرنسی  دیتے وقت جب تک متعین نہیں کرتا دوسرے کے لیے متعین نہیں ہوتا، اور یہ امام کرخی کا قول ہے، اس پر فتویٰ دیا گیا ہے۔

فتاوی عالمگیری (الفتاوى الهندية )  میں ہے:

"إذا تصرف في المغصوب وربح فهو على وجوه إما أن يكون يتعين بالتعيين كالعروض أو لا يتعين كالنقدين فإن كان مما يتعين لا يحل له التناول منه قبل ضمان القيمة وبعده يحل إلا فيما زاد على قدر القيمة وهو الربح فإنه لا يطيب له ولا يتصدق به وإن كان مما لا يتعين فقد قال الكرخي: إنه على أربعة أوجه إما إن أشار إليه ونقد منه أو أشار إليه ونقد من غيره أو أطلق إطلاقا ونقد منه أو أشار إلى غيره ونقد منه وفي كل ذلك يطيب له إلا في الوجه الأول وهو ما أشار إليه ونقد منه قال مشايخنا لا يطيب له بكل حال أن يتناول منه قبل أن يضمنه وبعد الضمان لا يطيب الربح بكل حال وهو المختار والجواب في الجامعين والمضاربة يدل على ذلك واختار بعضهم الفتوى على قول الكرخي في زماننا لكثرة الحرام." 

(كتاب الغصب، الباب الثامن فى تملك الغاصب والانتفاع به، ج:5، ص:141، ط:مكتبه رشيديه) 

فقط واللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144411100200

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں