بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

15 شوال 1445ھ 24 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہرپیسوں کی صورت میں مقرر ہونے کے بعد سونے کی شکل میں اداکرنے اور مطلقہ کے نفقہ اورسسرال والوں کی طرف سے ملنے والے تحائف کا حکم


سوال

1- میاں بیوی میں جھگڑے کے بعد مرد نے عورت کو (22 اکتوبر 2022 بمطابق 25 ربیع الاول 1444ھ بروز ہفتہ) اس کے میکے میں چھوڑا اور طلاق دینے کا کہا ،عورت نے اس وقت منع کردیا تو مرد فیصلہ کیلئے ایک دن کا وقت دے کر واپس چلا گیا ،اگلے دن (23 اکتوبر 2022، بمطابق 26 ربیع الاول 1444ھ بروز اتوار) عورت نے ساتھ نہ رہنے کا فیصلہ کرتے ہوئے بڑوں کے سامنے بیٹھ کر فیصلہ کرنے کا مطالبہ کیا، جس پر مرد راضی نہیں ہوا ،دوپہر میں مرد نے فون پر کہا کہ میں طلاق دوں گا ہی نہیں، طلاق لے سکتے ہیں تو لے لیں، اور اپنا سامان اٹھوالیں عورت نے کہا کہ طلاق نہیں دیتے  تو نہ دیں، کوئی فرق نہیں پڑتا، پھر رات میں مرد نے فون پر عورت سے بات کی ،اس کے بعد فوراً ہی خود اسپیکر کھولنے کا کہہ کر عورت کی ماں اور بہن کے سامنے کہا کہ" میں تمہارے کہنے پر تمہیں طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں، طلاق دیتا ہوں"، اس کے بعد مرد نے عورت کی ماں سے کہا جب آپ سامان اٹھوانے آئیں گی تو تحریری طور پر بھی طلاق نامہ دے دوں گا۔ 

2-یاد رہے کہ مہر 50 ہزار روپے مقرر ہوا تھا جو نصف معجل اور نصف مؤجل تھا، مرد نے شادی کی رات ہی منہ دکھائی اور مہر کے طور پر عورت کو سونے کی چین  دی جس کی مالیت تقریباً 35 ہزار تھی (2019  میں)،اب طلاق کے بعد باقی مہر کے بارے میں کیا حکم ہے؟  ادائیگی کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ عورت کو باقی مہر ملے گا یا نہیں؟( تین سال تک دونوں میاں ،بیوی ساتھ رہتے رہے،خلوتِ صحیحہ اورجسمانی تعلقات قائم ہوئے تھے)،سونے کی چین کی کس قیمت کا اعتبار ہوگا جو ادائیگی کے وقت تھی یا جو اب موجودہ قیمت ہے،اگر موجود قیمت کےاعتبار سے چین کی قیمت زیادہ بن رہی ہو تو پھر باقی مہر کس حساب سے ہوگا؟

واضح رہے کہ  طلاق دینے کے بعد مرد اس تمام صورت حال کو خلع کا نام دے کر مہر واپسی کا مطالبہ کررہا ہے۔ 

3-چونکہ عورت کو اس کے میکہ میں فون پر طلاق دی گئی ہے تو عدت کے نان و نفقہ کا کیا حکم ہے؟ 

4- شادی کے موقع پر سسرالی رشتے داروں کی جانب سے جو منہ دکھائی اور تحائف ملتے ہیں، کیا طلاق کے بعد وہ تحائف عورت نے واپس کرنے ہوں گے؟ 

اسی طرح شادی اور ولیمہ کے دن  دلہن کوجو کپڑے، جوتے وغیرہ مرد کی طرف سے دیے جاتے ہیں اور شادی کے بعد  کے عرصہ میں شوہر نے بیوی پر جو خرچہ کیا ہو کپڑے، جوتے وغیرہ اور گھریلو  سامان وغیرہ بیوی کو دیا ہو تو کیا عورت کو طلاق کے بعد وہ سب واپس کرنا ہوگا؟

مکمل اور واضح جواب مطلوب ہے۔

جواب

صورتِ مسئولہ میں شوہرکااپنی بیوی کو یہ کہنا کہ "میں تمہارے کہنے پرتمہیں طلاق دیتاہوں ،طلاق دیتاہوں ،طلاق دیتاہوں"اس سے بیوی پرتین طلاقیں واقع ہوگئی،بیو ی اپنے شوہر پرحرمتِ مغلظہ کے ساتھ حرام ہوگئی ،نکاح ختم ہو گیا ، اب  رجوع جائز نہیں اور دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔

مطلقہ اپنی عدت (پوری تین ماہواریاں اگر حمل نہ ہو اور اگر حمل ہو تو بچے کی پیدائش تک)گزار کر دوسری جگہ نکاح کرسکتی ہے ۔  

             البتہ عدت گزارنے کے بعد مطلقہ اگر کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور  اس سے صحبت (ہمبستری ) ہوجائے اس کے بعد  دوسرا شخص اسے  طلاق دےدے یا اس کا انتقال ہو جائے تو اس کی عدت گزار کر پہلے شوہر   سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔  

2-مذکورہ شخص کے بیان کے مطابق نکاح میں مہر50ہزارروپے مقررہواتھا،اورشوہرنے اپنی بیوی کو منہ دکھائی کے لیے اوربطورِمہرسونےکی چین( جس کی مارکیٹ ویلیواس وقت2019ءکے حساب سے 35000ہزارروپے تھی)دی تھی،توشرعاً یہ بیوی کا حق ہے اورشوہرپرلازم ہے کہ وہ اپنی بیوی کوباقی ماندہ 15000ہزارروپےمہر اداکرے۔

نیزجب مذکورہ شخص نے خودطلاق دے دی ہے توشرعاً  اس کو خلع قرارنہیں دیاجاسکتا،لہذاشوہرکا بیوی کوطلاق دینے کے بعدخلع کانام دے کرمہرکی واپسی کامطالبہ کرناشرعاً جائزنہیں اورنہ ہی بیوی مہرواپس کردینے کی مجاز ہے۔

3-نان نفقہ کے متعلق شرعی حکم یہ ہے کہ اگر خاتون اپنی عدت شوہر کے گھر میں گزارے(جیسا کہ شریعت کا حکم ہے) تو شوہر پر عدت کے دوران اس کا نان نفقہ واجب ہوگا، البتہ اگر خاتون اپنی عدت بغیر کسی عذر کے، شوہر کی مرضی کے بغیرمیکے میں گزارے، تو شوہر پر اس کا نان نفقہ بھی لازم نہیں ہوگا،شوہر کی مرضی سے گئی ہے تو نان و نفقہ لازم ہو گا۔

4-شوہرکے گھروالوں کی طرف سے لڑکی کو منہ دکھائی  میں  دئے گئے تحائف  اور کپڑے ،جوتے وغیرہ شرعاً یہ ان کی طرف سے ہبہ تھا،لہذامذکورہ کپڑے اورجوتے وغیرہ لڑکی کی ملکیت شمار ہوں گے ،شوہریااس کے گھروالوں کو واپسی کے مطالبہ کا اختیارنہیں ہے۔

نیزشوہرنے نکاح کے بعد بیوی پرجوکچھ خرچ کیاہے ، وہ بیوی پرواپس کرنالازم نہیں ہے،اورشوہرکوبھی اس کےمطالبہ کااختیارنہیں ہے۔

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"وإذا بعث الزوج إلى أهل زوجته أشياء عند زفافها منها ديباج فلما زفت إليه أراد أن يسترد من المرأة الديباج ليس له ذلك إذا بعث إليها على جهة التمليك."

( كتاب النكاح،الفصل السادس عشر فی جھاز البنت،ج:1،ص:327،ط:رشیدیة)

فتاوی شامی میں ہے:

"قلت: ومن ذلك ما يبعثه إليها قبل الزفاف في الأعياد والمواسم من نحو ثياب وحلي، وكذا ما يعطيها من ذلك أو من دراهم أو دنانير صبيحة ليلة العرس ويسمى في العرف صبحة، فإن كل ذلك تعورف في زماننا كونه هدية لا من المهر، ولا سيما المسمى صبحة، فإن الزوجة تعوضه عنها ثيابها ونحوها صبيحة العرس أيضا."

(کتاب النکاح،باب المهر،ج : 3،ص : 153،ط : سعید)

وفیہ أیضاً:

"والمعتمد البناء على العرف كما علمت."

(کتاب النکاح،باب المهر،ج : 3،ص : 157 ط : سعید)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المعتدة عن الطلاق تستحق النفقة والسكنى كان الطلاق رجعيا أو بائنا، أو ثلاثا حاملا كانت المرأة، أو لم تكن كذا في فتاوى قاضي خان الأصل أن الفرقة متى كانت من جهة الزوج فلها النفقة".

(کتاب الطلاق، الباب السابع عشر، الفصل الثالث فی نفقة المعتدة، ج:1،ص:557، ط:رشيدية)

شرح مختصرالطحاوی للجصاص میں ہے:

"قال: (وللمطلقة ثلاثًا السكنى والنفقة، حاملًا كانت أو غير حامل حتى تنقضي عدتها)

"والدليل عليه قول عمر بن الخطاب رضي الله عنه حين أنكر على فاطمة بنت قيس روايتها عن النبي صلى الله عليه وسلم أنه لم يجعل لها سكنى ولا نفقة، فقال عمر: "لا ندع كتاب ربنا، وسنة نبينا لقول امرأة لعلها نسيت أو شبه لها".فأخبر أن وجوب النفقة والسكنى مأخوذ من الكتاب والسنة."

(كتاب الطلاق، ‌‌باب النفقة على الأقارب والزوجات والمطلقات ج : 5 ص : 290 ط : دارالبشائرالاسلامية)

فتاوی ہندیہ میں ہے : 

 "وإن كان الطلاق ثلاثا في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجا غيره نكاحا صحيحا ويدخل بها ثم يطلقها أو يموت عنها كذا في الهداية."

(كتاب الطلاق ، الباب السادس في الرجعة وفيماتحل به المطلقة ومايتصل به ج : 1 ص : 470 رشيدية)

فقط واللہ أعلم


فتوی نمبر : 144403102382

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں