بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

17 شوال 1445ھ 26 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

دو لاکھ مہر کے عوض دوتولہ سونا اور ایک کمرہ مکان مقرر ہو تو مطلقہ کس کی حقدار ہوگی؟


سوال

ایک شخص کے نکاح کے وقت اس کی بیوی کا دو لاکھ روپیہ مہر معجل مقرر کیاگیا،پھر ادائیگی کے وقت  اس دو لاکھ کے عوض دو تولہ سونا اور ایک کمرہ مکان دیا گیا اور اس بات کو نکاح فارم میں تحریر بھی کیا گیا کہ دو لاکھ کے عوض دو تولہ سونا اور ایک کمرہ پختہ مکان بمع لوازمات بیوی کی ملکیت میں دیا گیا ہے،مجلس نکاح میں شوہر کی موجودگی میں یہ بات تحریر کی گئی جس پر شوہر کے دستخط موجود ہیں، بعد ازاں اس کمرے میں بیوی کا جہیز وغیرہ کا سامان  رکھ دیا گیا اور دونوں میاں بیوی اس کمرہ میں رہائش پذیر ہو گئے۔چند سالوں کے بعد بیوی کو اس کے شوہر نے تین طلاقیں دے دیں ہیں۔

اب جانبین میں مہر کے معاملے میں اختلاف ہو گیا ہےشوہر دو لاکھ دینا چاہتا ہے،جبکہ بیوی کے متعلقین کمرہ کی موجودہ قیمت  اور دو تولہ سونالینے پر مصر ہیں؟رہ نمائی فرمائیں کے مطلقہ کس چیز کی حق دار ہے؟۔

جواب

صورتِ مسئولہ  میں اگر واقعۃً نکاح کے وقت  دولاکھ روپے مہر کے عوض دوتولہ سونا اور ایک کمرہ مکان مع تمام لوازمات دینا طے پایا تھا اور  كمره بیوی  كي ملکیت میں دے دیا گیا تھا اور شوہر بھی اس پر راضی تھا تو اب طلاق ہوجانے کی صورت میں مطلقہ دولاکھ روپے کے عوض میں طے پانے والی اشیاء یعنی: دو تولہ سونا اور ایک کمرہ مکان، یا ان دونوں کی موجودہ قیمت کی حقدار ہے، اور مطلقہ کے سابقہ شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہے۔ 

قرآن کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"{وَآتَيْتُمْ إِحْدَاهُنَّ قِنطَارًا فَلَا تَأْخُذُوا مِنْهُ شَيْئًا}." [النساء:20]

ترجمہ:" اور تم اس ایک کو (مہر میں یا ویسے ہی بطور ہبہ کے) انبار کا انبار مال دے چکے ہو (خواہ ہاتھ میں یا خاص مہر صرف معاہدہ میں دینا کیا ہو) تو تم اس (دیے ہوئے یا معاہدہ کیے ہوئے) میں سے (عورت کو تنگ کرکے) کچھ (واپس) مت لو (اور معاف کرانا بھی حکماً واپس لینا ہے)۔"

(بیان القرآن، ج:2، ص:104، ط : میر محمد)

فتاوی شامی میں ہے:

"[تنبيه] حاصل هذه المسألة أن المسمى إذا كان من غير النقود بأن كان عرضا أو حيوانا إما أن يكون معينا بإشارة أو إضافة فيجب بعينه".

(كتاب النكاح، باب المهر ، ج: 3، ص: 129، ط: سعيد)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"(ثم الأصل) في التسمية أنها إن صحت وتقررت يجب المسمى ثم ينظر إن كان المسمى عشرة فصاعدا؛ فليس لها إلا ذلك....".

(الباب السابع في المهر، الفصل الأول في بيان مقدار المهر وما يصلح مهرا وما لا يصلح، ج:1، ص: 303، ط: دارالفكر) 

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144407101625

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں