بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

19 شوال 1445ھ 28 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

خلع کا بنیادی اصول


سوال

میرا شوہر نہ تو مجھے طلاق دیتاتھا، اور نہ ہی گھر میں ساتھ رکھنا چاہتاتھا، میں نے بہت کوشش کی، پھر تھک کر ایک سال بعد خلع کے لیے عدالت گئی، وہ عدالت بھی نہیں آئے، پھر مسئلہ کینٹ بورڈ میں چلاگیا، جہاں پر پانچ مہینے لڑکے کو بلایا گیا، وہ صرف ایک بار آیا، دوبارہ نہیں آیا، ویسے کینٹ بورڈ  میں چار مہینے کیس ہوتاہے، لیکن انہوں نے پانچ مہینے تک لڑکے کا انتظار کیا، وہ پھر بھی نہیں آیا، مجھے کینٹ بورڈ کے چیئرمین نے فیصلہ دے دیاہے، اب فیصلہ ہوجانے کے اگلے دن لڑکے نے کہاکہ اگر آپ حق مہر معاف کردو، تو میں طلاق دینے کے لیے تیار ہوں،برائے مہربانی مذکورہ معاملہ میں میری رہنمائی فرمائیں۔

جواب

واضح رہے کہ جس طرح دیگر مالی معاملات عاقدین کےدرمیان  آپس کی رضامندی سے طے ہونے کے بعد معتبر ہوتے ہیں، اسی طرح خلع میں  بھی شرعاً  میاں بیوی دونوں  کی رضامندی ضروری ہوتی ہے، یک طرفہ خلع شرعاً معتبر نہیں ہوتا۔

صورتِ مسئولہ میں سائلہ نےعدالت اور  کینٹ بورڈ میں کیا مقدمہ دائر کیاتھا، اور  کینٹ بورڈ کی طرف سے سائلہ کو کیا فیصلہ دیاگیاتھا، اِن تمام ترتفصیلات کو دیکھنے کے بعد ہی اس کا شرعی حکم بتلایاجاسکتاہے؛لہذا سائلہ عدالت اور کینٹ بورڈ کے تمام دستاویزات  بمع اردو ترجمہ ارسال کرکے متعلقہ مسئلہ کا شرعی حکم معلوم کرسکتی ہے۔

تبیین الحقائق میں ہے:

"وفي الشرع عبارة عن أخذ المال بإزاء ملك النكاح بلفظ الخلع وشرطه شرط الطلاق وحكمه وقوع الطلاق البائن وصفته يمين من جهته معاوضة من جهتها."

(كتاب الطلاق،باب الخلع،٢٦٧/٢،ط:المطبعة الكبرى الأميرية - بولاق، القاهرة)

بدائع الصنائع میں ہے:

"وأما ركنه فهو الإيجاب والقبول ؛ لأنه عقد على الطلاق بعوض، فلا تقع الفرقة ولا يستحق العوض بدون القبول."

(کتاب الطلاق، فصل وأماالذي یرجع الی المرأۃ، 145/3، ط: دارالكتب العلمية)

فتاوٰی شامی میں ہے :

"فقالت: خلعت نفسي بكذا، ففي ظاهر الرواية: لايتم الخلع ما لم يقبل بعده."

(کتاب الطلاق، باب الخلع، 440/3، ط: سعید)

فقط والله أعلم


فتوی نمبر : 144508100522

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں