بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

11 شوال 1445ھ 20 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر میں طے شدہ سونے کے بجائے اس کی قیمت ادا کرنا


سوال

 میری 2010 میں شادی ہوئی تھی۔ اور 2013 میں دوسری شادی کی۔ پہلی بیوی سے ایک بیٹا ہے ۔ میری پہلی بیوی مجھ سے حق مہر کا مطالبہ کر رہی ہے جو کہ 30 تولے سونا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ حق مہر کا سونا 2010 میں جو سونے کا ریٹ تھا اس حساب سے دوں گا یا آج کل جو سونے کا ریٹ ہے اس حساب سے دینا پڑے گا ۔ برائے مہربانی شریعت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں ۔ 

جواب

واضح رہے کہ  بیوی کی رضامندی سے مہر میں طے شدہ سونے کے بجائے اس کی قیمت بھی دی جاسکتی ہے، تاہم سونے کی قیمت موجود ہ قیمت کے اعتبار سے دینی ہوگی لہذا صورت مسئولہ میں اگر سونے کی قیمت ادا کرنی ہے تو موجودہ اعتبار سے جو قیمت ہوگی وہ ادا کرنی ہوگی۔

فتاوی شامی میں ہے:

"(وجاز) (التصرف في الثمن) بهبة أو بيع أو غيرهما لو عينا أي مشارا إليه ولو دينا فالتصرف فيه تمليك ممن عليه الدين ولو بعوض ولا يجوز من غيره ابن مالك (قبل قبضه) سواء (تعين بالتعيين)كمكيل (أو لا) كنقود فلو باع إبلا بدراهم أو بكر بر جاز أخذ بدلهما شيئا آخر (وكذا الحكم في كل دين قبل قبضه كمهر

(قوله: ولو بعوض) كأن اشترى البائع من المشتري شيئا بالثمن الذي له عليه...........(قوله: وكذا الحكم في كل دين) أي يجوز التصرف فيه قبل قبضه، لكن بشرط أن يكون تمليكا ممن عليه بعوض أو بدونه كما علمت........(قوله: كمهر إلخ) وكذا القرض."

(کتاب البیوع ، باب المرابحة و التولیة جلد ۵ ص: ۱۵۲ ، ۱۵۳ ط: دارالفکر)

فقط و اللہ اعلم 


فتوی نمبر : 144406100238

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں