بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

24 شوال 1445ھ 03 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر میں بغیر اجازت کے تصرف کرنا


سوال

لڑکی کے حق مہر کے پیسوں کا والدین، بہن بھائی یا جو بھی سرپرست ہے ،کیا یہ رقم اس کی ملکیت ہے؟ کیا وہ اپنے طور اپنے کسی کام میں خرچ کرسکتا ہے وہ بھی لڑکی سے پوچھے بغیر اور پھر واپس دینے کا اس کا ارادہ بھی نہ ہو۔ ہمارے ہاں عموماً جب لڑکی کے مہر کے پیسے لڑکی کے والدین بہن بھائی یا جو بھی سرپرست ہے اس کو   حوالے کی جاتی ہے، تو کچھ رقم سے وہ اس کیلئے سامان مثلاً کپڑے فرنیچر وغیرہ خرید کر بقیہ رقم خود کھا جاتے ہیں ،لڑکی سے پوچھتے تک نہیں ہیں، کیا ان کے لئے ایسا کرنا جائز ہے؟ اس کا شرعی حکم کیا ہے؟

جواب

واضح رہے کہ  شریعت  مطہرہ  نے مہر کو  عورت کا حق قرار دیا ہے،عورت ہی  اس کی مالک ہے وہ اپنی مرضی سے جہاں چاہے جائز کاموں  میں خرچ کر سکتی ہے ، اور اپنی مرضی سے کسی کو دینا چاہے تو دے سکتی ہے۔صورتِ مسئولہ  میں  لڑکی اپنی مرضی سے اپنے  سرپرست کو  اپنے مہر کے پیسوں سے  جتنا خرچ کرنے کی اجازت   دے  تو سرپرست کو اتنا ہی خرچ کرنے کی اجازت ہے،اس سے زیادہ میں تصرف کرنا  یا اس کو اپنے پاس لڑکی کے اجازت کے بغیر  رکھنا  اور لڑکی کو نہ دینا ظلم ہے، اور دوسرے کے حق کو غصب کرنا ہے ،جو کہ شر عاً نا جائز و حرام ہے۔

فتاوی ھندیۃ میں ہے:

"للمرأة أن تهب مالها لزوجها من صداق دخل بها زوجها أو لم يدخل وليس لأحد من أوليائها أب ولا غيره الاعتراض عليها، كذا في شرح الطحاوي. وليس للأب أن يهب مهر ابنته عند عامة العلماء، كذا في البدائع"۔

(کتاب المکاح، باب المھر، الفصل العاشر في هبة المهر،ج:1، ص:316، ط:مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)

فتاوی شامی میں ہے:

"ثم عرف المهر في العناية بأنه اسم للمال الذي يجب  في عقد النكاح على الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد، واعترض بعدم شموله للواجب بالوطء بشبهة ومن ثم عرفه بعضهم بأنه اسم لما تستحقه المرأة بعقد النكاح أو الوطء وأجاب في النهر بأن المعروف مهر هو حكم النكاح بالعقد تأمل"۔

(کتاب النکاح، باب المھر، ج:3، ص:100،101، ط:ایچ ایم سعید)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144509100933

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں