بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

16 شوال 1445ھ 25 اپریل 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کی حیثیت اور مہر ادا نہ کرنے کا حکم


سوال

اگر کسی علاقے میں یہ رواج ہو کہ جب لڑکی کا نکاح ہو تو لڑکی والے شرط کے طور پر پانچ یا دس لاکھ حق مہر لکھوائیں تا کہ بعد میں لڑکی کے ساتھ کوئی زیادتی نہ ہو اور حق مہر ادا بھی نہ کیا جائے تو کیا یہ رواج جائزہ ہے؟

جواب

واضح رہے کہ شرعاً مہر بیوی کا حق ہوتا ہے، جو شوہر کے ذمےبیوی کو دینا لازم ہوتا ہے، اور بیوی کی اجازت کے بغیر شوہر یا کسی بھی دوسرے شخص کے لیے مہر کی رقم استعمال کرنا جائز نہیں ہوتا۔قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں خوش دلی سے عورتوں کے مہر اداکرنے کا حکم دیاگیاہے۔چنانچہ قرآن کریم میں ارشادِباری تعالیٰ ہے:

"وَآتُوا النِّسَاءَ صَدُقَاتِهِنَّ نِحْلَةً ."

"اوردے دو عورتوں کواُن کے مہرخوشی سے "۔(النساء:4)

اس آیتِ کریمہ میں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ مہر عورت کاحق ہے اور شوہرپراس کی ادائیگی واجب ہے،جس طرح دیگرحقوقِ واجبہ کوخوش دلی کے ساتھ اداکرناضروری ہے ، اسی طرح مہرکوبھی خوش دلی کے ساتھ اداکرنالازم ہے۔

نیز : واضح رہے کہ شریعتِ مطہرہ نے میاں بیوی میں سے ہر ایک کے حقوق واضح فرما دیئے ہیں، جن کی مکمل پاسداری لازم ہے، اور کسی کے لیے بھی جائز نہیں کہ وہ دوسرے کے حقوق پامال کرے، یا کسی بھی طرح ظلم و زیادتی کرے،خصوصاً بیوی کے حقوق کے سلسلے میں شریعتِ مطہرہ نے بڑی تاکید فرمائی ہے، لہذا ان کے حقوق کی رعایت نہایت ضروری ہے۔

بصورتِ مسئولہ اتنا زیادہ مہر مقرر کرنا کہ جو ادا ہی نہ کیا جا سکے، یا جس کے ادا کرنے کی نیت ہی نہ ہو، محض رواج کے طور پر لکھوا لیا جائے یہ طرزِ عمل درست نہیں، بلکہ مہر اتنا مقرر کرنا چاہیے جو بسہولت ادا کیا جا سکے،اور جتنا مہر مقرر کیا جائے وہ بیوی کو اداکرنا لازم ہے، بیوی کا حقِ مہر ادا نہ کرنا شرعاًظلم ہے، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

بدائع الصنائع میں ہے:

"وروي عن رسول اﷲ صلی اﷲ علیه وسلم، أنه قال من کشف خمار امرأته ونظر إلیها وجب الصداق دخل بها، أو لم یدخل وهذا نص في الباب". ( کتاب النکاح، فصل و أما بیان مایتأکد به المهر، ۲/۲۹۲، ط: دار الكتب العلمية)

المبسوط للسرخسی میں ہے :

"و الدليل عليه أنها تحبس نفسها؛ لاستيفاء المهر، و لاتحبس المبدل إلا ببدل واجب و إن بعد الدخول بها يجب. و لا وجه لإنكاره؛ لأنه منصوص عليه في القرآن."

(كتاب النكاح، باب المهور،5 / 63، ط: بيروت)

فتاوی ہندیہ میں ہے:

"المهر يتأكد بأحد معان ثلاثة: الدخول، والخلوة الصحيحة، وموت أحد الزوجين سواء كان مسمى أو مهر المثل حتى لا يسقط منه شيء بعد ذلك إلا بالإبراءمن صاحب الحق، كذا في البدائع."

(كتاب النكاح، الباب السابع في المهر، الفصل الثاني فيمايتاكد به المهر، ج: 1، صفحه: 304، ط: دارالفکر)

فقط و الله اعلم


فتوی نمبر : 144408100917

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں