بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيم

13 مئی 2024 ء

دارالافتاء

 

مہر کی حکمت، اور مہر اور اجرتِ زنا میں فرق


سوال

1) مہر کی حکمت کیا ہے ؟

2)ہمارے ناقص علم کے مطابق مہر ملک بضعہ کی قیمت ہوتا ہے جب کوئی آدمی قیمت ادا کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے تو اس کو زنا کیوں شمار کیا جاتا ہے ؟

جواب

1)واضح رہے کہ  نکاح میں مہر دینے کی اصل وجہ  اللہ تعالیٰ  کا حکم ہے، اللہ تعالی کا ارشاد ہے:{ وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ أَن تَبْتَغُوا بِأَمْوَالِكُم مُّحْصِنِينَ غَيْرَ مُسَافِحِينَ ۚ}، البتہ حکمتیں علماء  نے لکھی ہیں۔

علامہ کاسانی رحمہ اللہ نے مہر کی حکمت یہ لکھی ہے کہ اصل میں عورت ایک محترم ذات ہے، نکاح کے نتیجہ میں مرد کے لیے عورت سے اپنی فطری ضرورت کو پورا کرنا اور اُس کے خاص حصہ سے نفع اٹھانا حلال ہوجاتا ہے،اس نفع اٹھانے کے لیے شریعت نے مرد پر کچھ مال واجب کیا ہے، تاکہ مرد کے دل میں اس کی اہمیت رہے، ورنہ مردوں کو اس محترم رشتہ کو ختم کرنے میں ذرا بھی تامل نہیں رہے گا اور نکاح کے مقاصد حاصل نہیں ہونگے۔

اسی طرح حکیم الامت اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ   نے  احکامِ اسلام عقل کے نظر میں مہر کی تین حکمتیں لکھی ہے جو درجہ ذیل ہیں: 

"نکاح میں تعیین مهر کار از :

(۱) نکاح میں یہ بات متعین ہوئی کہ مہر مقرر کیا جائے تاکہ خاوند کو اس نظم و تعلق کے توڑنے میں مال کے نقصان کا خطرہ لگا ر ہے،  اور بلا ایسی ضرورت کے جس کے بغیر اس کو چارہ نہ ہو اس پر جرات نہ کر سکے پس مہر کے مقرر کرنے میں ایک قسم کی پائداری ہے۔

(۲) نکاح کی عظمت بغیر مال کے جو کہ شرم گاہ کا بدلہ ہوتا ہے ظاہر نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کو جس قدر مال کی حرص ہے اور کسی چیز کی نہیں ہے لہذا اس کے صرف کرنے سے اس ایک چیز کا مہتم بالشان ہونا معلوم ہو سکتا ہے اور اسکے مہتم بالشان ہونے سے اولیا کی آنکھیں اس شخص کو اپنے لخت جگر کے مالک ہوتے ہوئے دیکھنے سے ٹھنڈی ہو سکتی ہیں۔

(۳) مہر کے سبب سے نکاح و زنا میں امتیاز ہو جاتا ہے چنانچہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے:  ان تبتغو باموالكم محصنين غير مسافحين. ترجمہ : بذریعہ اپنے مالوں کے تم اپنی عفت کی حفاظت کر نے والےبنو اور صرف مستی نکالنے والے نہ ہو، یہی وجہ ہے کہ رسوم سلف میں سے آنحضرت  صلی اللہ علیہ وسلم نے وجوبِ مہر کو بد ستور باقی رکھا۔"

(کتاب النکاح، ص:154،  ط:مکتبہ عمر فاروق)

2)باقی رہی سائل کی یہ بات کہ مہر ملک بضعہ کی قیمت ہے ، تو قیمت ادا کرکے ضرورت پورے کرنے کو زنا کیوں  شمار کیا جاتا ہے، تو یہ  بات غلط ہے اس لیے کہ  نکاح  کا  مقصد  انسانی  نسل کی بقا، دنیا کے نظام کو باقی رکھنے اور مرد اور عورت کي عفت وپاکدامنی کے ساتھ زندگی گزارنا ہے،  نہ کہ صرف مستی نکالنا اور شہوت پوری کرنا، اور  نکاح  مرد و عورت کی باہمی رضامندی سے، نکاح کی مجلس میں  دو گواہوں کی موجودگی میں مہر مقرر کرکے ، ایجاب وقبول    کے ذریعے  عقد کرنے کا نام ہے، اس کی باقاعدہ  تشہیر  کرنے کا حکم ہے۔  جب کہ  زنا ، نکاح کے بغیر ، مرد و عورت کے جنسی تعلق قائم کرنے کو کہتے ہیں، نکاح اور زنا میں بہت سے فرق ہیں، جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1: نکاح کو اللہ تعالیٰ نےجائز قرار دیا ہے، جب کہ زنا کو اللہ تعالیٰ  نے حرام  اور کبیرہ گناہ قرار دیا ہے۔

2:  نکاح سے حاصل ہونے والا تعلق صرف جنسی خواہش کی تکمیل نہیں،بلکہ نکاح  جسم وروح کا باہمی رشتہ ہے، اس مقدس رشتے میں میاں بیوی ایک دوسرے سے  ہمیشہ وابستہ رہنے اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کرنے کا عہد وپیمان کرتے ہیں،میاں بیوی کے اس قدر گہرے تعلق کو قرآنِ کریم نے یوں بیان کیا ہے کہ زوجین کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیاہے، جب کہ زنا   سے مقصود  صرف ہوس رانی، اور  جنسی لذت  کی حصول یابی اورجوش محبت کی وقتی تسکین ہوتی ہے اس میں نہ تو کوئی پاکیزگی ہے اور نہ ہی ایک دوسرے پر کوئی ذمہ داری عائد ہے۔

3:  نکاح کا رشتہ  عفت و پاک دامنی کا سبب اور گناہوں سے بچنے کا ذریعہ ہے، جب کہ ”زنا“ خود کبیرہ گناہ ہے۔

4: نکاح کے مقاصد میں سے ایک عظیم مقصد نسل انسانی  کی حفاظت  اور بقا ہے۔ ”مقاصد الشریعۃ الاسلامیۃ“  میں ہے کہ: ”نکاح کی مشروعیت اور اس کی ترغیب اور اس کو  فطری طریقہ قرار دینے کی وجہ یہی ہے کہ  نوعِ انسانی کی حفاظت ہو  اور ایسی نیک صالح اولاد  کا وجود ہو جو اس عالم کی تعمیر کر سکے ،انسانی زندگی کو بنا سکے اور خلافت کی چادر کو سنبھال  سکے،  تاکہ اپنے بعد والے کو یہ امانت حوالہ کردے،اور یہ سلسلہ جاری ہے یہاں تک کہ انسان ہمیشہ ہمیشہ والی زندگی میں داخل ہوجائے“۔ جب کہ” زنا“   سے  ہر گز یہ  مقصود نہیں ہوتا، بلکہ اگر اس کے ذریعے حمل ٹھہر بھی جائے تو اس کا قتل کردیا جاتا ہے۔

5: نکاح   کے ذریعہ حاصل ہونے والا  رشتہ مستحکم و پائیدار ہونے کے ساتھ معاشرہ میں عزت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے،  اس کے برخلاف” زنا“ کے ذریعہ جنسی تعلق قائم کرنا گندا ، ناپائیدار ہونے کے ساتھ صرف شہوت پورا کرنے  کا بدترین طریقہ ہے، جسے اللہ تعالیٰ نے گندا،  برا  اور گناہ کا راستہ بتلایا ہے،  ہرمذہب، قوم، معاشرہ میں اسے بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

6: نکاح انبیاء کی سنت ہے، زنا فسّاق و فجار کا طریقہ ہے۔

7: نکاح میں عورت کی عزت ہے، جب کہ زنا میں عورت کی تذلیل ہے، کیوں کہ اس تعلق کا مقصد صرف اور صرف   اپنی خواہش کی تکمیل ہے، پھر جب اس کی جوانی ڈھل جاتی ہے تو سب اس سے منہ موڑ لیتے ہیں۔

1)بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع میں ہے:

"لأن ملك النكاح لم يشرع لعينه بل لمقاصد لا حصول لها إلا بالدوام على النكاح والقرار عليه، ولا يدوم إلا بوجوب المهر بنفس العقد لما يجري بين الزوجين من الأسباب التي تحمل الزوج على الطلاق من الوحشة، والخشونة فلو لم يجب المهر بنفس العقد ‌لا ‌يبالي ‌الزوج عن إزالة هذا الملك بأدنى خشونة تحدث بينهما؛ لأنه لا يشق عليه إزالته لما لم يخف لزوم المهر فلا تحصل المقاصد المطلوبة من النكاح؛ ولأن مصالح النكاح ومقاصده لا تحصل إلا بالموافقة ولا تحصل الموافقة إلا إذا كانت المرأة عزيزة مكرمة عند الزوج ولا عزة إلا بانسداد طريق الوصول إليها إلا بمال له خطر عنده؛ لأن ما ضاق طريق إصابته يعز في الأعين فيعز به إمساكه، وما يتيسر طريق إصابته يهون في الأعين فيهون إمساكه ومتى هانت في أعين الزوج تلحقها الوحشة فلا تقع الموافقة فلا تحصل مقاصد النكاح."

 (كتاب النكاح، فصل المهر، ج:2، ص:275، ط:دار الكتب العلمية)

حجة الله البالغةمیں ہے:

"لا يظهر الاهتمام بالنكاح إلا بمال يكون عوض البضع، فإن الناس لما تشاحوا بالأموال شحا لم يتشاحوا به في غيرها كان الاهتمام لا يتم إلا ببذلها، وبالاهتمام تقر أعين الأولياء حين يتملك هو فلذة أكبادهم وبه يتحقق التمييز بين النكاح والسفاح، وهو قوله تعالى:{أن تبتغوا بأموالكم محصنين غير مسافحين} .فلذلك أبقى النبي صلى الله عليه وسلم وجوب المهر كما كان، ولم يضبطه للنبي صلى الله عليه وسلم بحد لا يزيد ولا ينقص، إذ العادات في إظهار الاهتمام مختلفة، والرغبات لها مراتب شتى، ولهم في المشاحة طبقات، فلا يمكن تحديده عليهم كما لا يمكن أن يضبط ثمن الأشياء المرغوبة بحد مخصوص."

 (صفة النكاح، ج:2، ص:198،ط:دار الجيل، بيروت)

2)تفسیر ابن کثیر میں ہے:

"وقوله: هن لباس لكم وأنتم لباس لهن قال ابن عباس ومجاهد وسعيد بن جبير والحسن وقتادة والسدي ومقاتل بن حيان: يعني هن سكن لكم وأنتم سكن لهن، وقال الربيع بن أنس: هن لحاف لكم وأنتم لحاف لهن، وحاصله: أن الرجل والمرأة كل منهما يخالط الآخر ويماسه ويضاجعه، فناسب أن يرخص لهم في المجامعة في ليل رمضان لئلا يشق ذلك عليهم ويحرجوا."

(سورة النساء،آية:24، ج:1،ص:375، ط:دار الکتب العلمیة)

 تفسیرِ روح المعاني ميں هے:

"{ وابتغوا مَا كَتَبَ الله لَكُمْ } أي اطلبوا ما قدره الله تعالى لكم في اللوح من الولد ، وهو المروي عن ابن عباس والضحاك ومجاهد  رضي الله تعالى عنهم وغيرهم . والمراد الدعاء بطلب ذلك بأن يقولوا : اللهم ارزقنا ما كتبت لنا ، وهذا لا يتوقف على أن يعلم كل واحد أنه قدر له ولد ، وقيل : المراد ما قدره لجنسكم والتعبير بما نظراً إلى الوصف كما في قوله تعالى : { والسماء وَمَا بناها } [ الشمس : 5 ] وفي الآية دلالة على أن المباشر ينبغي أن يتحرى بالنكاح حفظ النسل لا قضاء الشهوة فقط لأنه سبحانه وتعالى جعل لنا شهوة الجماع لبقاء نوعنا إلى غاية كما جعل لنا شهوة الطعام لبقاء أشخاصنا إلى غاية ، ومجرد قضاء الشهوة لا ينبغي أن يكون إلا للبهائم."

(سورة النساء،آية:24، ج:1،ص:462، ط:دار الکتب العلمیة)

تفسیر راغب ميں هے :

"وقوله تعالى: {وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ} إشارة في تحري النكاح إلى لطيفة، وهي أن الله تعالى جعل لنا شهوة النكاح لبقاء نوع الإنسان إلى غاية، كما جعل لنا شهوة الطعام لبقاء أشخاصنا إلى غاية، فحق الإنسان أن يتحرى بالنكاح ما جعل الله لنا سعلى حسب ما يقتضيه العقل والديانة، فمتى تحرى به حفظ النسل وحصن النفس على الوجه المشروع، فقد ابتغى ما كتب الله له."

 (سورة النساء،آية:24، ج:1،ص:399، ط: كلية الآداب - جامعة طنطا)

مقاصد الشريعة الاسلامية ميں هے:

"رابعاً :حفظ النسل ويراد به حفظ النوع الإنساني على الأرض بواسطة التناسل ذلك أن الإسلام يسعى إلى استمرار المسيرة الإنسانية على الأرض حتى يأذن الله بفناء العالم ويرث الأرض ومن عليها . ومن أجل تحقيق هذا المقصد شرع الإسلام المبادئ والتشريعات التالية:

شريعة الزواج : فقد شرع الإسلام الزواج ورغب فيه واعتبره الطريق الفطري النظيف الذي يلتقي فيه الرجل بالمرأة لا بدوافع غريزية محضة ولكن بالإضافة إلى تلك الدوافع ، يلتقيان من أجل تحقيق هدف سام نبيل هو حفظ النوع الإنساني وابتغاء الذرية الصالحة التي تعمر العالم وتبني الحياة الإنسانية وتتسلم أعباء الخلافة في الأرض لتسلمها إلى من يخلف بعدها حتى يستمر العطاء الإنساني وتزدهر الحضارة الإنسانية في ظل المبادئ النبيلة والقيم الفاضلة."

(الكليات الخمس، ‌‌رابعا: حفظ النسل، ج:1،ص:24، ط: الكتاب منشور على موقع وزارة الأوقاف السعودية)

  احکامِ اسلام عقل کے نظر میں " میں ہے:

"حرمت زنا کی وجہ : (۱) فاسق و فاجر کا دل ٹولا جائے تو صاف ظاہر ہو گا کہ وہ تدابیر نافعہ کے تو معتقد ہیں لیکن ان پر نفسانی خواہشیں غالب ہو جاتی ہیں جو ان سے نافرمانیاں کراتی ہیں وہ خود خوب جانتے ہیں کہ ہم گناہگار ہیں اور لوگوں کی بہو بیٹیوں سے زنا کرتے ہیں اور اگر کوئی انکی بیوی یا بہن سے ایسی حرکت کرے تو غصہ سے کانپنے لگیں وہ خوب جانتے ہیں کہ لوگوں پر ان برائیوں کا وہی اثر ہوتا ہے اور ایسے اثروں کا ہونا انتظام تمدن  کے لیے سخت مضر ہے،  لیکن باوجود اس جاننے کے خواہشاتِ نفسانیہ ان کو  اندھا کر دیتی ہیں اور راز اس وجدانی اثر کا یہ ہے کہ تمدن میں بہ نسبت عورتوں کے زیادہ دخل مردوں کو ہوتا ہے، اس واسطے بالہامِ الہٰی ان میں یہ خیال پیدا ہو گیا ہے کہ ہر شخص کی بیوی دوسرے سے علیحدہ ہو اس میں دوسرا شخص کسی قسم کی مزاحمت نہ کرے اور زنا کی اصل میں مزاحمت ہے، اس لیے  یہ خیال اور یہ اثر ہر شخص کا فطری اور وجدانی ہو گیا ہے،  پس ایک سبب تو حرمت زنا کا یہ امر فطری ہے اور دوسر ا سبب ایک مصلحت عقلی ہے وہ یہ کہ زنا سے خلط نسب ہو جاتا ہے۔ اور نیز وہ قتل اور فساد کا منبع ہے،  اس  لیے بھی یہ طریق نہایت قبیح اور برا ہے اسی  لیے اللہ تعالی اس کے  منع کرنے میں فرماتا ہے: لاتقربو الزنا انه كان فاحشه و ساء سبيلًا. ترجمه یعنی ان اسباب کے نزدیک بھی نہ جاؤ جن سے زنا تک نوبت پہنچے؛ کیوں کہ  زنا بے حیائی کا کام اور بر اطریق ہے؛ کیوں کہ  اگر یہ راہ نکلے تو مفاسدِ  مذکورہ جو کہ عظیم ہیں لازم آئیں اور اسباب کے نزدیک نہ جانے کا یہ مطلب ہے کہ بیگانہ عورت کو نہ دیکھو اور نہ اس کے حسن و محاسن کی باتیں سنو جن کو دیکھ کر یا سن کر تمہارے خیالات زنا کی طرف بر انگیختہ ہوں اور جن سے زنا تک نوبت پہنچے۔"

(کتاب الجنایات و الحدود، ص:240،  ط:مکتبہ عمر فاروق)

فقط واللہ اعلم


فتوی نمبر : 144505100554

دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن



تلاش

سوال پوچھیں

اگر آپ کا مطلوبہ سوال موجود نہیں تو اپنا سوال پوچھنے کے لیے نیچے کلک کریں، سوال بھیجنے کے بعد جواب کا انتظار کریں۔ سوالات کی کثرت کی وجہ سے کبھی جواب دینے میں پندرہ بیس دن کا وقت بھی لگ جاتا ہے۔

سوال پوچھیں